خلاصہ: ہوسکتا ہے کہ انسان تکلیفوں کے ایک پہلو کو دیکھے، لیکن دوسرے پہلو کو نہ دیکھے۔ تکلیف کے اس پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے جس میں معنویت ہے۔
اصول یہ ہے کہ جب کسی چیز کو کسی چیز پر خرچ کیا جاتا ہے تو جو چیز حاصل کی جاتی ہے، اُس وقت میں حاصل کی گئی چیز خرچ کی گئی چیز سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ مثلاً آدمی گندم فروخت کرکے روٹی خریدتا ہے تو گندم بھی اہمیت کی حامل ہے، لیکن اُس وقت میں اس آدمی کے لئے روٹی زیادہ اہمیت کی حامل ہے، روٹی کی یہ اہمیت کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟ بھوک سے، بھوک کو بجھانے کی اہمیت کہاں سے پیدا ہوتی ہے؟ زندہ رہنے کی ضرورت سے۔ زندہ رہنے کی ضرورت کہاں سے پیدا ہوئی؟ یہ تو انسان کا فطری تقاضا ہے، یہاں تک کہ انسان اپنا سب کچھ زندہ رہنے پر قربان کردیتا ہے۔
لہذا جب آدمی کوئی چیز خریدنا چاہے تو اس چیز کی اہمیت کے بارے میں سوچے گا کہ کیا اسے اس کی ضرورت ہے یا نہیں۔ دوسرے لفظوں میں کیا وہ چیز زیادہ اہم ہے یا پیسہ، یعنی اس چیز کی زیادہ ضرورت ہے یا پیسہ کو محفوظ رکھنے کی۔
یہ مثال اس بات کے لئے ہے کہ جو مشکل پیش آتی ہے، اسباب کو اس پر خرچ کیا جاتا ہے تا کہ ان اسباب کو خرچ کرکے تکلیف اور مشکل سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، لہذا مشکل سے رہائی پانے کی اہمیت، خرچ ہونے والے اسباب سے زیادہ ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا تکلیف اس لیے آتی کہ اسباب کو صرف استعمال کرلیاجائے یا کسی بڑے مقصد کے لئے ہے؟ یقیناً کسی ایسے مقصد کے لئے ہے جس پر تکلیف کو خرچ کیا جارہا ہے، وہ یہ ہے کہ مشکلات اور تکلیفیں خود ایسے اسباب و وسائل ہیں جن کے ذریعے اللہ کی معرفت اور قرب حاصل کیا جاسکتا ہے۔
اگر انسان تکلیف کو دور کرنے کے مرحلہ تک رُک جائے اور اگلے مرحلہ کے بارے میں نہ سوچے تو وہ اسی طرح ہے جیسے اس نے پیسے دے کر گاڑی خرید لی ہو، لیکن اس کے ذریعے کہیں بھی نہیں جانا چاہتا۔ مشکلات اس سواری کی طرح ہیں جو انسان کو اللہ کے قرب تک پہنچاتی ہیں۔ لہذا ضروریات خود مقصد نہیں ہیں، بلکہ کسی اور مقصد تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں۔
Add new comment