بسم اللہ الرحمن الرحیم
مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس کے تین فقروں کی تشریح کرتے ہوئے، اس سلسلہ میں ساتواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ سیدالاوصیاء حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجتے ہوئے مناجات کو شروع کرتے ہیں، اس کے بعد بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ اسْمَعْ دُعَائِی إِذَا دَعَوْتُك وَ اسْمَعْ نِدَائِی إِذَا نَادَیتُك وَ أَقْبِلْ عَلَی إِذَا نَاجَیتُك، فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَیك وَ وَقَفْتُ بَینَ یدَیك مُسْتَكیناً لَك مُتَضَرِّعاً إِلَیك رَاجِیاً لِمَا لَدَیك ثَوَابِی"، "اور میری دعا سن جب تجھے پکاروں اور میری آواز (نداء) سن جب تجھے آواز (نداء) دوں اور میری طرف توجہ فرما جب تجھ سے رازونیاز (مناجات) کروں، تو تیری طرف بھاگ آیا ہوں اور تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں تیرے سامنے خضوع کرتا ہوا، تیری بارگاہ میں گڑگڑاتا ہوا ، اُس ثواب پر امید رکھے ہوئے جو میرا تیرے پاس ہے"۔ اس مضمون میں تین حالات یعنی"مُسْتَكیناً لَك مُتَضَرِّعاً إِلَیك رَاجِیاً لِمَا لَدَیك ثَوَابِی"کے فقروں کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔
تشریح
الفاظ کی تشریح: ان تین فقروں میں تین حالتیں ذکر ہوئی ہیں کہ جو شخص اللہ کی طرف بھاگ جائے اور اللہ کی بارگاہ میں کھڑا ہو تو یہ تین حالتیں اس میں ہونی چاہئیں۔ لفظی لحاظ سے مُسْتَكیناً، مُتَضَرِّعاً، رَاجِیاً حال ہیں یعنی انسان کی حالت کو بیان کررہے ہیں۔
مُسْتَکیناً: استکانت کا مطلب خضوع و خشوع ہے، یعنی اللہ کے سامنے جھکنا۔ ابن منظور کا کہنا ہے: "فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ[1]"، ای فما خضعوا[2]، "پھر بھی انہوں نے اپنے پروردگار کے سامنے استکانت نہ کی" یعنی خضوع نہ کیا۔ شیخ طبرسی[3] اور شیخ طریحی[4] نے بھی اسی جیسے معنی بتائے ہے۔البتہ بعض علماء استکان کو سکینہ اور سکون سے جانتے ہیں[5]، لیکن پہلا معنی مشہور ہونے کے ساتھ ساتھ، اس مناجات اور آیت کریمہ کے مطلب کے ساتھ زیادہ مناسب ہے۔
مُتَضَرِعاً: گڑگڑانے، زاری کرنے اور دعا میں اصرار کرنے کے معنی میں ہے۔ ابن منظور نے اس کے معنی خضوع اور ذلت کے بتائے ہیں اور کہا ہے: "فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا[6]"، فمعناہ تذللوا و خضعوا،[7] "جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تو آخر انہوں نے تضرع کیوں نہ کی" تو تضرعوا کے معنی یہ ہیں کہ انہوں نے تذلل اور خضوع کیا۔
راجیاً: "ر، ج، و " کے مادہ سے اسم فاعل اور حال ہے اور رجاء و امید کے معنی میں ہے اور اصطلاحاً احتمالی نشانیوں کے پیش نظر، اچھے کام کی توقع اور امید رکھنا یا دوسرے لفظوں میں ایسے کام کے وقوع پذیر ہونے کا گمان رکھنا جو خوشی کا باعث ہے۔[8]
ثواب: جزاء، بدلہ، سزا۔ ثواب نیک اور برے کاموں کی جزاء کو کہا جاتا ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے سزا کے بارے میں فرمایا ہے:"هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ[9]"، "کیا کافروں کو ان کے کئے ہوئے (کرتوتوں) کا پورا بدلہ مل گیا ہے" اور نیکیوں کے بدلہ کے بارے میں فرمایا ہے: "فَأَثَابَهُمُ اللَّهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِينَ[10]"، "اللہ نے ان کو ان کے اس قول کے صلہ میں ایسے بہشت عطا فرمائے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ نیکوکاروں کا معاوضہ ہے"۔
مناجات کی تشریح:
مُسْتَکیناً اور مُتَضَرِّعاً کی وضاحت: مذکورہ تین حالتیں جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے مناجات شعبانیہ میں بیان فرمائی ہیں، ان میں سے دو حالتیں استکانت اور تضرع ہیں۔ سورہ مومنون میں اللہ تبارک و تعالی نے ان دو الفاظ کو ایک ہی آیت میں بیان فرمایا ہے: "وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ"[11]، "اور ہم نے انہیں سزا میں گرفتار بھی کیا مگر وہ پھر بھی اپنے پروردگار کے سامنے نہ جھکے اور نہ تضرع و زاری کی"۔ شیخ کلینی ؒ نے اصول کافی میں اپنی سند کے ساتھ محمد ابن مسلم سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے اللہ عزوجل کے کلام "فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ"کے بارے میں دریافت کیا تو آپؑ نے فرمایا: "الِاسْتِكَانَةُ هُوَ الْخُضُوعُ وَ التَّضَرُّعُ هُوَ رَفْعُ الْيَدَيْنِ وَ التَّضَرُّعُ بِهِمَا"[12]، استکانت خضوع ہے اور تضرع ہاتھوں کو اٹھانا ہے اور ان کے ذریعہ تضرع کرنا ہے"۔ کتاب قاموس قرآن میں آیا ہے کہ استکانت قلبی کیفیت ہے اور تضرع، زاری زبان سے ہوتی ہے اور ظاہری عمل ہے۔[13]
استکانت اور تضرع کی اہمیت: دعا تضرع اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہونی چاہیے، جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حکم دیا ہے: "ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ"[14]، "اپنے پروردگار سے گڑگڑا کر اور چپکے چپکے دعا کرو، بے شک وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا"۔ اللہ تعالی بعض اوقات لوگوں کو تکلیف میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ تکبر و غرور کی حالت سے نکل آئیں اور اللہ کی بارگاہ میں تضرع و زاری کریں، جیسا کہ فرمایا: "فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ"[15]، "تو ہم نے ان کو تنگدستی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ تضرع و زاری کریں"۔ مصیبت اور تکلیف کے وقت تضرع اور تواضع کرنا، اللہ تعالی پر ایمان کی دلیل ہے اور اس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ انسان، ایسی حالت میں اللہ کی پناہ لینا چاہتا ہے۔ جب انسان کا دل، اللہ کی طرف متوجہ ہوجائے تو نرم ہوجاتا ہے اور اس پر رقت طاری ہوجاتی ہے، تو غفلت کی نیند سے جاگ جاتا ہے اور ہوش میں آجاتا ہے۔لہذا اس کے لئے وہی مصیبت، نعمت بن جاتی ہے اور دل کی نرمی اور رقت کے باعث اس کے دل میں اللہ کی جو محبت پیدا ہوئی ہے، وہ محبت اس کی سعادت اور خوش بختی کا باعث بن جاتی ہے۔ وہ گمراہی اور انحراف سے رخ موڑ کر صراط مستقیم اور حق کی طرف ہدایت پاجاتا ہے۔ لیکن مصیبت آنے کے باوجود بھی بعض لوگ اپنی ہٹ دھرمی اور گمراہی پر ڈٹے رہتے ہیں اور کسی تکلیف سے ان میں بیداری پیدا نہیں ہوتی تو ایسے لوگ عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں، جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کے بعد والی آیات میں فرمان الہی ہے: "فَلَوْلَا إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَٰكِن قَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ . فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ"[16]، "جب ان کے پاس ہماری طرف سے سختی آئی تو آخر انہوں نے تضرع و زاری کیوں نہ کی؟ لیکن ان کے دل تو اور بھی سخت ہوگئے اور شیطان نے (ان کی نظروں میں) ان کاموں کو جو وہ کرتے تھے آراستہ کرکے پیش کیا۔ اور جب انہوں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے (ابتلا و امتحان کے طور پر) ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ وہ عطا کردہ چیزوں (نعمتوں) سے خوب خوش ہوگئے اور اترانے لگے تو ہم نے اچانک انہیں پکڑ لیا تو وہ ایک دم مایوس ہوگئے"۔تضرع کی اہمیت اسقدر زیادہ ہے کہ حضرت امام سجاد (علیہ السلام) خداوند متعال کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: "وَ لَا يُنْجِينِي مِنْكَ إِلَّا التَّضَرُّعُ إِلَيْكَ وَ بَيْنَ يَدَيْك"، "اور تیری بارگاہ میں گڑگڑاہٹ کے علاوہ کوئی چیز مجھے تجھ سے رہائی نہیں دے سکتی"۔
اللہ کے ثواب پر امید: جب انسان دعا کرتا ہے تو اللہ پر اور اس کے لطف و کرم پرامید رکھے، ثواب کے بارے میں نہ لاپرواہ ہو اور نہ ناامید ہو۔ انسان کو جان لینا چاہیے کہ کوئی کام جزا کے بغیر نہیں ہے۔ رجا اور امید، ایمان کی علامت ہے ۔ قرآن کی ہر سورہ (سوائے سورہ توبہ کے) اللہ کی رحمت کا ذکر کرتی ہوئی شروع ہوتی ہے، یہ بہترین تعلیم ہے اس بات کی کہ بندوں کو رحمتِ پروردگار پر امیدوار رہنا چاہیے۔
استکانت، تضرع اور کرم پروردگار پر امید دیگر معصومین (علیہم السلام) کے کلام میں: حضرت امام زین العابدین (علیہ السلام) صحیفہ سجادیہ میں بارگاہ پروردگار میں عرض کرتے ہیں: "دَعَوْتُكَ- يَا رَبِّ- مِسْكِيناً، مُسْتَكِيناً، مُشْفِقاً، خَائِفاً، وَجِلًا، فَقِيراً، مُضْطَرّاً إِلَيْك"، "اے میرے پروردگار! میں نے ایسے حال میں کہ میں بالکل مسکین، عاجز، خوف زدہ، ترساں، ہراساں، بے سروسامان اور لاچار ہوں، تجھے پکارا ہے"۔ نیز حضرت امام سجاد (علیہ السلام) کی مناجات کے یہ فقرے تو اور زیادہ مناجات شعبانیہ سے ملتے جلتے ہیں، جہاں آپؑ بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں:"وَ قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْكَ مُسْتَكِيناً مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ رَاجِياً لِمَا عِنْدَكَ "[17]، "میں خضوع کرتے ہوئے ، گڑگڑاتے ہوئے اور جو تیرے پاس ہے اس پر امید رکھے ہوئے تیری بارگاہ میں بیٹھا ہوں"۔ حضرت امام سجاد (علیہ السلام) بارگاہِ پروردگار میں عرض کرتے ہیں: "…فَمَثَلَ بَيْنَ يَدَيْكَ مُتَضَرِّعاً"[18]، "…چنانچہ وہ عاجزانہ صورت میں تیرے سامنے آکھڑا ہوا"۔ نیز حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) کے قنوت کی دعا کے کچھ فقرے یہ ہیں: "يَا مَوْلَايَ صَاغِراً رَاغِماً مُسْتَكِيناً عَالِماً أَنَّهُ لَا فَرَجَ لِي إِلَّا عِنْدَك"[19]۔
نتیجہ: جو انسان دشمنوں کے چنگل سے بھاگ کر اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا ہے اسے خشوع و خضوع اور تضرع و گڑگڑاہٹ کے ساتھ اور اللہ کے ثواب پر امید رکھتے ہوئے بارگاہِ الہی میں حاضر ہونا چاہیے۔ خضوع و خشوع اور تضرع و زاری ایسے حالات ہیں جن کے ذریعہ سے انسان قرب پرودگار کا مقام حاصل کرسکتا ہے اور تکلیفوں کے موقع پر تکلیف کو برطرف کرنے کے لئے یہ کام مفید اور نتیجہ خیز ہیں۔ نیز انسان کے ہر کام کا کوئی بدلہ ہوتا ہے لہذا ہر نیکی کے بدلہ میں اللہ پر ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ مومنون، آیت 76۔
[2] لسان العرب، ج13، ص218۔
[3] مجمع البیان، ج7، ص113۔
[4] مجمع البیان، ج6، ص267۔
[5] مجمع البیان، ج7، ص113۔
[6] انعام، 43۔
[7] لسان العرب، ج8، ص221۔
[8] ماخوذ از: مفردات، راغب اصفہانی، خوف و رجا کے الفاظ کے ذیل میں۔
[9] مطففین، آیت 36۔
[10] مائدہ، آیت 85۔
[11] سورہ مومنون، آیت 76۔
[12] الكافي، ج2، ص480۔
[13] قاموس قرآن، علی اکبر قرشی، ج4، ص181۔
[14] سورہ اعراف، آیت 55۔
[15] سورہ انعام، آیت 42۔
[16] سورہ انعام، آیات 43، 44۔
17]مصباح المتہجد، شیخ طوسی، ج1، ص396۔
[18] صحیفہ سجادیہ، دعاء 31۔
[19]مہج الدعوات، ابن طاووس، ص56۔
خلاصہ: مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے بارگاہ الہی میں عرض کی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ کی بارگاہ میں بھاگ کر آجاتا ہے اسے خضوع اور گڑگڑاہٹ اور اللہ کے پاس موجودہ ثواب پر امید رکھتے ہوئے حاضر ہونا چاہیے۔
Add new comment