مَنْ كٰانَتْ لَهُ إِلَی اللهِ حٰاجَةٌ فَلْیَغْتَسِلْ لَیْلَةَ الْجُمُعَةِ بَعْدَ نِصْفِ اللَّیْلِ وَ یَاٴُ تي مُصَلاّٰهُ؛”جو شخص خداوندعالم کی بارگاہ میں کوئی حاجت رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے، اور خدا سے مناجات کے لئے اپنی جانماز پر گریہ و زاری کرے“۔[مصباح، کفعمی، ص396۔]
شرح:ابو عبد اللہ حسین بن محمد بزروفی کہتے ہیں: امام زمانہ علیہ السلام کی طرف سے ایک توقیع پھنچی جس میں لکھا ہوا تھا:”جو شخص خداوندعالم کی بارگاہ میں کوئی حاجت رکھتا ہو تو اس کو چاہئے کہ شب جمعہ آدھی رات کے بعد غسل کرے اور اپنی جا نماز پر آئے، دو رکعت نماز پڑہے اور جب ( إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَإِیَّاكَ نَسْتَعِینُ) پر پھنچے تو اس کو سو مرتبہ پڑہے اور پہر سورہ حمد کو تمام کرے، اس کے بعد سورہ توحید کو ایک مرتبہ پڑہے، پہر رکوع و سجدہ بجالائے اور رکوع و سجود کے ذکر کو سات مرتبہ پڑہے۔ اور پہر دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑہے، اور نماز کے بعد (یہ) دعا پڑہے (جس کو کفعمی علیہ الرحمہ نے باب 36 کے شروع میں بیان کیا ہے) اور دعا کے بعد سجدہ میں جائے اور خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرے اور پہر اپنی حاجت طلب کرے۔ کوئی مرد و عورت ایسا عمل انجام دے اور خلوص دل سے دعا کرے تو اس کے لئے باب اجابت کھل جائیں گے اور اس کی حاجت کچھ بھی ہو پوری ہوجائے گی، مگر یہ کہ اس کی حاجت قطع تعلق کے لئے ہو“۔اس حدیث سے چند نکات معلوم ہوتے ہیں:1۔ بغیر مقدمہ کے خدا سے حاجت کی درخواست نہیں کرنی چاہئے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ انسان کے اندر کچھ موانع پائے جاتے ہوں جن کی وجہ سے انسان کی دعا باب اجابت سے نہ ٹکرائے، جن میں سے ایک مانع گناہ ہے۔2۔ دعا اور مغفرت کے لئے صرف استغفار کافی نہیں ہے، بلکہ توحید کا اقرار اس کے مراتب کے ساتھ ساتھ اور تسبیح و ذکر خدا بھی اس سلسلہ میں موثر ہیں۔3۔ دعا کے قبول ہونے کے لئے جگہ اور وقت بھی موثر ہیں؛ لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام نے حکم دیا ہے کہ حاجت مند شخص شب جمعہ جو پورے ہفتہ میں بہترین شب ہے اور وہ بھی آدھی رات جو شب و روز میں بہترین وقت ہے، ہمیشہ نماز پڑھنے کی جگہ (جا نماز) جو مومن کے لئے بہترین جگہ ہے، قرار پائے اور نماز کے بعد اپنی حاجتوں کو خدا سے طلب کرے۔
ماخذ: تقی الدین ابراهیم بن علی کفعمی (۸۴۰. ۹۰۵ هجری) مصباح المهتجد، ص396،موسسه فقه الشیعه، بیروت، 1411ه، چاپ اول۔
Add new comment