خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کی تشریح کرتے ہوئے "مھبط الوحی" کی وضاحت کے لئے وحی کی تین قسمیں بتائی جارہی ہیں۔
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، وَ مَوْضِعَ الرِّسالَةِ، وَ مُخْتَلَفَ الْمَلائِكَةِ، وَ مَهْبِطَ الْوَحْى"، "آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ، اور رسالت کا مقام، اور ملائکہ کے آمد و رفت کا مقام، اور وحی کے اترنے کا مقام"۔
جب قرآن کریم میں لفظ وحی کے استعمالات پر غور کیا جائے تو وحی کے کئی معانی کی نشاندہی ہوتی ہے: خاص وحی، عام وحی اور اَعَم وحی۔
۱۔ خاص وحی
وحی کی یہ قسم یہ ہے کہ معاشرے کی ضرورت کے احکام اور قوانین کے بارے میں اللہ کے پیغام کا پیغمبر تک پہنچنا۔ وحی کی یہ قسم، انبیاء (علیہم السلام) سے مختص ہے اور اس طرح کی وحی میں کوئی ان کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ وحی کی یہ قسم رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کی رحلت کے ساتھ رک گئی۔ سورہ شوری، آیت ۵۱ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ"، "اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردہ کے پیچھے سے یا وہ کوئی پیغام بر (فرشتہ) بھیجے اور اس کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے۔ بیشک وہ بزرگ و برتر (اور) بڑا حکمت والا ہے"۔
۲۔ عام وحی
عالَم غیب کا "الہام" کی صورت میں خاص افراد کے ساتھ جو رابطہ ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کے علاوہ دوسروں کو بھی شامل ہوتا ہے، اسے "عام وحی" کہا جاتا ہے۔ اس طرح کی وحی میں شریعت اور احکامِ الٰہی نہیں پہنچائے جاتے۔ ان نیک بندوں کی ایک مثال جن کو اس طرح کی وحی ہوئی ہے، حضرت موسی (علیہ السلام) کی والدہ ہیں، سورہ قصص، آیت ۷ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ أُمِّ مُوسَىٰ أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِي إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ"، "اور ہم نے مادر موسیٰ کو وحی کی کہ اس (بچہ) کو دودھ پلا۔ اور جب اس کے متعلق خطرہ محسوس ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور (کسی قسم کا) خوف اور غم نہ کر، بلاشبہ ہم اسے تیری طرف واپس لوٹا دیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنائیں گے"۔
عام وحی رُکی نہیں ہے، بلکہ ائمہ طاہرین (علیہم السلام) اور کامل انسان ہمیشہ اس نعمت سے فیضیاب ہیں۔
۳۔ اَعَم وحی
وحی کی یہ قسم "غریزی اور فطری الہام" ہے، یا وہ رابطہ جو عالَم غیب کا فطری طور پر مخلوقات سے ہے، جیسا کہ شہد کی مکھی کے بارے میں سورہ نحل، آیت ۶۸ میں ارشاد الٰہی ہے: "وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ"، "اور آپ کے پروردگار نے شہد کی مکھی کو یہ وحی کی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور ان چھپروں میں جن پر لوگ بیلیں چڑھاتے ہیں گھر (چھتے) بنایا کر"۔
یہاں وحی سے مراد وہی غریزہ اور فطرت ہے جو شہد کی مکھی میں رکھی گئی ہے اور وہ اللہ کی عطا کردہ اسی فطرت کے تحت عمل کرتی ہے اور ایسا نہیں ہے کہ کوئی فرشتہ اس سے بات کرے یا اللہ کا پیغام اسے پہنچائے۔
۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر قرآن ناطق، محمدی ری شہری]
[آیات کا ترجمہ از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment