ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے اٹھائیسویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّـهُ لَكُمْ ۖ وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ وَاللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ﴿١١﴾ سورة المجادلة: مسلمانوں میں ایک شوق یہ بھی تھا کہ ہر وقت بزم رسولؐ میں حاضر رہو تا کہ اپنے تقرب کا پروپیگنڈہ کیا جاسکے اور اس طرح عدیم الفرصت مسلمانوں کو زحمت ہوتی تھی، تو قدرت نے تنبیہ کی کہ اول تو آنے والوں کو جگہ دو اور پھر جگہ کم ہو تو اٹھ جاو اور اسے برا نہ مانو اس لئے کہ صاحبان علم و ایمان کو بہرحال برتری حاصل ہونی چاہیے اور انہیں محفل میں مناسب جگہ ملنی چاہیے، انہیں جاہلوں اور کم رتبہ افراد کے برابر نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ عالم عالم ہوتا ہے اور جاہل جاہل صرف محفل میں آ کر بیٹھ جانے سے جاہل عالم نہیں کہا جا سکتا اورمحفل میں حاضر نہ رہ سکنے کی بناپر عالم جاہل کے مانند نہیں ہوسکتا ،اعلم ایک کمال بشریت ہے جو اپنے حامل کو ہمیشہ سرفراز اور سر بلند رکھتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ ۚ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢﴾ سورة المجادلة: جب بعض مسلمانوں نے صحبتِ پیغمبرؐ کو شخصیت سازی کا ذریعہ بنا لیا اور غریبوں کا داخلہ بند کر دیا تو قدرت نے یہ پابندی عائد کر دی کہ پہلے صدقہ دو اس کے بعد بزمِ پیغمبرؐ میں آؤ تا کہ یہ واضح ہو جائے کہ کون اپنی صحابیت کی کس قدر قیمت لگاتا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ فخر رازی اور طبری جیسے مفسرین کے اعتراف کے مطابق اس آیت پر حضرت علیؑ کے علاوہ کسی نے عمل نہیں کیا؛ صرف آپ کے پاس ایک دینار تھا تو اسے دس درہم میں بُھنایا اور ایک ایک کر کے صدقہ دیتے رہے اور بزم پیغمبرؐ میں حاضری دیتے رہے جس کے بعد آیت کا حکم منسوخ ہو گیا اور سارے صاحبان ریا کی صحابیت کا راز کھل گیا۔
واضح رہے کہ آیت کا رخ ان افراد کی طرف ہے جنہیں بلا سبب محفل میں جمے رہنے کا شوق تھا، اس سے ان افراد کا کوئی تعلق نہیں ہے جنہیں اس طرح کی شخصیت سازی کا خیال نہیں تھا اور جو اپنے رتبہ سے خود بھی باخبر تھے اور بوقت ضرورت حاضری دیتے تھے اور پھر اپنے فرائض میں مصروف ہو جاتے تھے۔
هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ ۔۔۔۔ ﴿٢﴾ سورة الحشر:یہودیوں کا ایک قبیلہ بنی نضیر جس نے پیغمبر ؐاسلام سے صلح کا معاہدہ کر لیا تھا اور دونوں مدینہ میں سکون کی زندگی گزار رہے تھے لیکن جب احد میں مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے تو ان کے سردار کعب بن اشرف نے رسول اکرمؐ کی ہجو میں اشعار پڑھنے شروع کر دیئے، آپ نے
اس کے قتل کا حکم دے دیا اور ایک لشکر بھیج کر ان یہودیوں کا محاصرہ کر لیا، ادھر منافقین نے یہودیوں سے سازش کر لی کہ ہم مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہارا ساتھ دیں گے لیکن ۲۱ دن کے مسلسل محاصرہ میں بھی کوئی ایک بھی ہمدرد نہ نکالا اور بالآخر یہودیوں نے جلا وطن ہوجانے پر صلح کر لی اور ہر تین آدمی پر ایک اونٹ سامان لے کر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئے۔ مفسرین کا بیان ہے کہ یہ یہودیوں کی پہلی سزا تھی ؛ اس کے بعد دوبارہ انہیں حضرت عمر نے نکالا ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج رسول اکرمؐ کا کلمہ پڑھنے والے اور حضرت عمر سے خصوصی عقیدت رکھنے والے مسلمان بھی یہودیوں سے سازش اور دوستی کر رہے ہیں اور دونوں کی روح کو اذیت دے رہے ہیں، انہیں یہ بھی احساس نہیں ہے کہ اس طرح نہ سنت رسولؐ پر باقی رہ سکیں گے اور نہ سیرت شیخین پرعمل کر سکیں گے۔ خدا برا کرے سیاست دنیا کا کہ اس نے مسلمانون سے سب کچھ چھین لیا اور غیرت اسلامی کا بھی خاتمہ کر دیا جب کہ خدا مسلمانوں کی امداد کیلئے ہمیشہ تیار ہے اور اس کے اسباب فراہم کرتا رہتا ہے اور یہودیوں کے دل میں خوف اور دہشت خودبھی ایک بہترین وسیلہ ہے جس کے ذریہ یہودی آج تک لرز رہے ہیں اور منافق مسلمان ان یہودیوں سے لرزہ براندام ہیں اور جبکہ یہودیوں میں حقیقی مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے۔
Add new comment