سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: چوبیسویں پارے کا مختصر جائزہ

Sat, 06/01/2019 - 01:45

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے چوبیسویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: چوبیسویں پارے کا مختصر جائزہ

اللَّـهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ سورة الزمر: مالک کائنات نے تخلیق کائنات میں یہ عجیب مصلحت رکھی ہے کہ انسان کو دو اجزا سے مرکب کر دیا ہے، ایک کو مادی بنایا ہے اور ایک کو غیر مادی اور پھر حیات کا فلسفہ یہ قرار دیا ہے که مادی کی حیات کا دارو مدار غیر مادی پر رکھا ہے اور غیر مادی کی زندگی کا دارومدار مادی پر نہیں رکھا ہے، گویا یہ ایک اشارہ ہے کہ انسانیت کا دارو مدار روحانیت اور معنویت پر ہے، مادیت کی کوئی ہستی اور حقیقت نہیں ہے اور یہیں سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پروردگار نے غائب کی زندگی کو حاضر سے وابستہ نہیں کیا ہے بلکہ حاضر کی زندگی کو غائب سے وابستہ کیا ہے کہ جب تک جسم ِحاضر کا رشتہ روح غائب سے برقرار رہے گا انسان زنده رہے گا اور جب غیب سے رشتہ ٹوٹ جائے گا تو موت واقع ہو جائے گی اور یہ ایک اشارہ ہے کہ جس طرح انسان کی حیات روح غائب سے وابستہ ہے اسی طرح ایمان کی زندگی بھی ایمان بالغیب سے وابستہ ہے اور اس کے بغیر ایمان زندہ رہنے والا اور ایمان کہے جانے کے قابل نہیں ہے، صاحبان عقل کو تخلیق کے ان نکات اور مصالح پرغور کرنا چاہیے اور ایمان بالغیب کی عظمت کا اندازہ کرنا چاہیے۔ 
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿٥٣﴾ سورة الزمر: رحمت خدا سے مایوسی ایک عظیم جرم  ہے  اور گناہ کبیرہ ہے اور اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ تصور کر لے کہ کوئی گناہ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو رحمت خدا سے بالاتر ہو اور جس کے معاف کرنے پر خدا بھی قادر نہ ہو، جو بہرحال ایک غیر منطقی تصور ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان اس طرح رحمت خدا کا مذاق اڑانے لگے اور اسے گناہ کرنے کا بہترین بہانہ بنا لے کہ یہ بھی ایک دوسرا جرم عظیم ہے اسلام کی نگاہ میں رحمت خدا سے مایوس ہونا بھی ایک جرم ہے اور عذاب خدا کی طرف سے لا پرواہ ہو جاتا بھی ایک جرم ہے۔ 
اسلام اس توازن حیات کا قائل ہے جہاں ذہن میں عذاب الہی کا احساس بھی رہے تا کہ جرم سرزد نہ ہونے پائے اور رحمت خدا کا خیال بھی رہے کہ اگر جرم سرزرد ہو جائے تو رحمت خدا سے ما یوس  نہ ہو کہ توبہ کا خیال بھی نہ پیدا ہو ورنہ رحمت کا احساس ذہن سے نکل گیا اور یہ طے کر لیا کہ جہنم میں بہر حال جانا ہی ہے تو جرائم کی تعداد میں اور اضافہ ہو جائے گا اور گناہ کی مقدار بڑھتی ہی جائے گی ، اسی اضافۂ گناہ کو رو کے لئے اتنا وسیع اعلان مغفرت کر دیا گیا ہے ورنہ مغفرت بہرحال اسی کے ہاتھ میں ہے، وہ جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس کو چاہے گا جہنم میں ڈال دے گا ، اس پر معاف کر دینے کا کوئی لزوم اور جبر  نہیں ہے۔
فَادْعُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ﴿١٤﴾ سورة غافر:عبادت کا سب سے بڑا اخلاص یہی ہے کہ انسان کو اس بات کی فکر نہ ہو کہ اس کی عبارت لوگوں کو اچھی لگتی ہے یا بری  ورنہ جہاں لوگوں کی پسند و ناپسند کا خیال ذہن میں آ گیا وہاں اخلاصِ عمل مجروح ہو جائے گا اور جس قدر یہ خیال راسخ ہوتا جائے گا اخلاص عمل تباہ و برباد ہوتا جائے گا، یہاں تک کہ بعض علماء اسلام نے اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انسان ریاکاری کے خوف سے اگر لوگوں کا خیال ذہن میں رکھ کرعمل کو چھپا کر بھی انجام دے گا کہ لوگوں کو معلوم نہ ہونے پائے یا وہ طعن و طنز نہ کرنے پائیں تو یہ بھی ریا کاری ہی کی ایک قسم ہے کہ اس میں بھی انسان کے ذہن پر انسان ہی مسلط ہے اور خدا کا اخلاص نہیں ہے ورنہ وہ رب العالمین کا مخلص بندہ ہوتا تو بندوں کے خیال سے بے نیاز ہو کرعمل کرتا اور خدا مجمع عام میں حکم دیتا تو مجمع عام میں عمل انجام دیتا اور وہ تنہائی میں عمل کرنے کا حکم دیتا تو گوشہ گمنامی میں چلا جاتا، اس کے کسی عمل کا محرک بندوں کا خیال یا ان کی تعریف و تنقیص نہ ہوتی بلکہ ہر عمل کا محرک صرف پروردگار کی اطاعت کا جذ بہ ہوتا، چاہے دنیا اسے پسند کرے یا یکسر ناپسندیدہ قرار دیدے۔ 
رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ ﴿١٥﴾ سورة غافر: بیشک وہ خدا رفیع الدرجات ہے اور جس کو جس قدر بلندی چاہے عطا کر دیتا ہے وہ کسی میں صلاحیت دیکھتا ہے تو عرش اعظم تک بلا لیتا ہے اور کسی میں قابلیت دیکھتا ہے تو صاحب معراج کے کاندھوں پر بلند کر دیتا ہے۔ 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 79