سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: چھبیسویں پارے کا مختصر جائزہ

Sat, 06/01/2019 - 13:39

ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے چھبیسویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔

سیپارۂ رحمان:معارف اجزائے قرآن: چھبیسویں پارے کا مختصر جائزہ

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ۔۔۔۔۔۔۔۔ سورة الأحقاف: محمد بن اسحاق نے سیرت میں یہ واقعہ درج کیا ہے کہ عثمان کے سامنے ایک عورت کو لایا گیا جس کے یہاں چھ مہینے میں بچہ پیدا ہوگیا تھا تو انہوں نے سنگسار کرنے کا حکم دیدیا، اتنے میں حضرت علیؑ آ گئے اور انہوں نے فرمایا کہ کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا ہے اس نے رضاعت کا زمانہ دو سال قرار دیا ہے اور رضاعت و حمل کا زمانہ تیس مہینے کا قرار دیا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ حمل کا کم سے کم زمانہ چھ مہینے ہوتا ہے لہذا اس پر حد جاری کر نے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ عثمان نے کہا کہ یہ استنباط تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا اور یہ کہہ کر فیصلہ بدل دیا، اس واقعہ سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ پیغمبرؐ اسلام نے قرآن کے ساتھ اہلبیتؑ کو کیوں چھوڑا تھا اہلبیتؑ قرآن کے ان اسرار و رموز سے باخبر ہیں جنہیں امت کا کوئی قاری یا حافظ نہیں سمجھ سکتا ہے اور نہ ایسے افراد کو جامع قرآن کہنے کا کوئی جواز ہے۔ 
وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ ﴿٢٩﴾ سورة الأحقاف: قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جنات کا ذکر کیا گیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ایک مخلوق ہے جس کے حالات انسانوں کے حالات سے ملتے جلتے ہیں اور اس کے دریافت کرنے کا ذریہ بھی وحی الہٰی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس لئے کہ یہ مخلوق عام طور سے مشاہدہ سے بالاتر ہے۔ سورہ جن میں اس قوم کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ موجود ہے، غرض تخلیق کے بیان میں بھی اس کا ذکر آیا ہے، شیاطین کی اقسام میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے، خود شیطان کے بارے میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس کا تعلق قوم جن سے تھا لیکن اس مقام پر جس تذکر کو پیش کیا گیا ہے وہ انسانوں کیلئے باعث عبرت ہے کہ جنات کے گروہ نے جیسے ہی قرآن کو سنا خود بھی ایمان لے آئے اور اپنی قوم کو بھی ہدایت دینے کیلئے تیار ہو گئے اور داعی اللہ کی آواز پر لبیک نہ کہنے کے نتائج سے بھی باخبر کرنے لگے لیکن انسان اشرف مخلوقات ہونے کا دعویٰ  کرنے کے باوجودمسلسل آیات قرآنی کو سنتا ہے لیکن اس کے دل و دماغ پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، ایسے انسانوں سے تو یہ جنات ہی بہتر ہیں۔ واضح رہے کہ جنات کے وجود کا ثابت ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ روزانہ جتنے واقعات جنات کے بارے میں پیش آتے ہیں اور جس جس طرح جنات چڑھائے با اتارے جاتے ہیں یہ سارے واقعات صحیح اور مطابق عقل و منطق ہیں، ان واقعات کی اکثریت تو بہر حال وہم و گمان کے علا وہ کچھ نہیں ہے  یہی وجہ ہے کہ ان کا اثر صرف جاہل عوام پر ہوتا ہے اور انہیں پر جنات آتے رہتے ہیں ورنہ صاحبان علم فضل پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ 
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ﴿٧﴾ سورة محمد: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خدا نے صاحبان ایمان سے نصرت کا وعدہ کیا ہے اور وہ ان کی مددکرتا بھی ہے چاہے فتح کی صورت میں ہو یا بقائے دوام کی صورت میں یا کسی اور صورت میں لیکن یہ سب اس بات سے مشروط ہے کہ پہلے بندہ اسکی مدد کرے اور اس کے دین کے کام آئے ورنہ قربانی کے بغیر خداکسی طرح کی امداد کا ذمہ دار نہیں ہے اور انجام کار تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے، دور حاضر میں مسلمانوں کی نَکبت کا راز یہی ہے کہ وہ دین خدا کی امداد نہیں کرتے اور خدا سے غیبی امداد کے امیدوار رہتے ہیں اور اس طرح دشمن کو موقع مل جاتا ہے اور وہ ان کی کاہلی اور بے غیرتی سے فائدہ اٹھا کر انہیں مختلف قسم کی ذلتوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ 
۔۔۔۔وَالَّذِينَ كَفَرُوا يَتَمَتَّعُونَ وَيَأْكُلُونَ كَمَا تَأْكُلُ الْأَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّهُمْ ﴿١٢﴾ سورة محمد: امیر المؤمنینؑ سے نہج البلاغہ میں انتہائی حسین جملہ مرقوم ہے کہ فرمایا:خدا نے مجھے اس لئےنہیں پیدا کیا ہے کہ مجھے بہترین غذائیں اپنی طرف متوجہ کر لیں جس طرح کہ بندھا ہوا جانور صرف چارہ کھانا ہی جانتا ہے اور آزاد جانور صحرا کا کوڑا کرکٹ چباتا ہے کہ وہ چارہ سے پیٹ تو  بھر لیتا ہے لیکن مقصد کی طرف سے بالکل آزاد اور غافل ہوتا ہے؛ رب کریم ہر مسلمان کو ان فقرات سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 8 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 30