ماہ رمضان ، ماہ نزول قرآن ہے، روزے بھی رکھیئے ! اور اپنی زبانوں کو تلا وت سے، کانوں کو سماعت سے اور دلوں کو قرآن کریم کے معانی اور مطالب میں غور و تدبر سے معطر اور منور بھی کیجئے ! وہ خوش نصیب انسان جو بندوں کے نام ، اللہ کے پیغام اور اسکے کلام کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا چاہتے ہیں ، ان کے لئے ہر روز تلاوت کیے جانے والے ایک پارہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔اور یہ اس سلسلے کے ستائیسویں پارے کا خلاصہ ہے، کیا عجب کہ یہ خلا صہ ہی تفصیل کے ساتھ قرآن کریم کے مطالعہ اور اس کے مشمولات کے ذریعہ عمل پر آمادہ کر دے ۔
قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمٍ مُّجْرِمِينَ ﴿٣٢﴾ سورة الذاريات: شریعت اسلام کا قانون یہ ہے کہ مرد و عورت شادی شدہ ہونے کے بعد اور جنسی تسکین کے امکان کے باوجود بھی ناجائز تعلقات قائم کریں تو انہیں سنگسار کر دیا جائے، ظاہر ہے کہ جو پروردگار مرد اور عورت کے ایسے تعلقات کو برداشت نہیں کرسکتا جو فطری طور سے تعلقات کا موضوع ہیں تو وہ مردمرد کے تعلقات کو کس طرح برداشت کر سکتا ہے اور چونکہ اس مسئلہ میں قوم جناب لوط کی بات ماننے کیلئے بالکل تیار نہیں تھی ،اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی سزا تجویز کرتے قدرت نے خود آسمانی سزا کا انتظام کر دیا اور اقوام عالم کو ہوشیار کر دیا کہ بعض جرائم ایسے بھی ہیں جن کی سزا کا ہم فوراً انتظام کرتے ہیں اور انہیں میں سے ایک ہم جنسی بھی ہے۔ (خدا آج کی ترقی یافتہ اقوام کوعقل سلیم عطا کرے۔)
أَتَوَاصَوْا بِهِ ۚ بَلْ هُمْ قَوْمٌ طَاغُونَ ﴿٥٣﴾ سورة الذاريات: یہ عجیب بات ہے کہ اہل باطل جهان بھی رہتے ہیں ان کی باتیں ایک ہی جیسی ہوتی ہیں کہ مشرق وغرب عالم میں ہر ڈاڑھی منڈانے والے کے پاس ایک ہی دلیل ہے کہ قرآن میں کہاں لکھا ہے، ہر خمس نہ دینے والا ایک ہی بات کہتا ہے کہ یہ سب کھانے پینے کے ذرائع ہیں، مولا کا مال چاہنے والوں کے لئے حلال ہے؛ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم دوسری قوم کو وصیت کر کے جاتی ہے کہ یہی عذر بیان کرنا ہے یا سب کا استاد کوئی ایک ہی ہے جو سب کو ایک ہی سبق سکھاتا ہے!!!۔
إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ﴿٧﴾ سورة الطور:عذاب کے وقوع کا امکان واضح کرنے کیلئے قدرت نے چند قسم کی مخلوقات اور ان کے اختیارات کی قسم کو ذریعہ بنایا ہے؛ طور،کتاب مسطور، بیت معمور ( جو آسمان پر ہے اور وہاں کے باشندوں کا قبلہ بھی ہے) بلند ترین آسمان ، جوش مارتا ہوا سمندر وغیرہ تا کہ انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ جو ان تمام چیزوں کو خلق کرسکتا ہے وہ ایک لمحے میں انہیں خراب بھی کرسکتا ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔یہ انسان کی بدبختی ہے کہ اس قدر واضح قدرت کاملہ کا مشاہدہ کرنے کے بعد بھی قیامت کے امکانات پر بحث کرتا ہے اور اپنے کو اس ہولناک موقع کیلئےتیار نہیں کرتا ہے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَانٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا أَلَتْنَاهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَيْءٍ ۚ كُلُّ امْرِئٍ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ ﴿٢١﴾ سورة الطور:یہ بات تقر یباً مسلمات میں سے ہے کہ دنیا میں نابالغ بچوں کا حکم ان کے ماں باپ کا حکم ہوتا ہے اور ماں باپ مسلمان ہوتے ہیں تو پھر بچہ بھی مسلمان کے حکم میں رہتا ہے اور ماں باپ کا فر ہوتے ہیں تو بچہ بھی انہیں کے حکم میں رہتا ہے اور یہ ایک طرح سے مسلمان کو اس کے اسلام کا انعام اور کافر کو اس کے کفر کی سزا ہے کہ اس کی نجاست و نحوست نسلوں میں منتقل ہو جاتی ہے، لیکن آخرت کے اعتبار سے یہ مسئلہ زیر بحث ہے کہ وہاں ان بچوں کا کیا انجام ہو گا۔
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ ﴿٤﴾ سورة النجم:آیات کا تمام تر مقصد یہ ہے کہ پیغمبرؐ اسلام کی گفتار کی مکمل ضمانت پیش کی جائے کہ اس میں خواہشات کا کوئی دخل نہیں ہے اور وہ سراسروحی ہے چاہے قرآن حکیم کی شکل میں ہو یا حدیث و سنت کی شکل میں ہو، اور اس حقیقت کا تذکرہ آیت ۵ میں بھی ہے اور آیت ۱۰ میں بھی ہے اور پھر تمام ضمائر کا مرجع خود ذات پروردگار ہے جس کا مشاہدہ سرکار دو عالمؐ نے اسی طرح کیا جس طرح امیر المؤمنینؑ اس کی عبادت مشاہد ہ کے ساتھ کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ وہ حقائق ایمان سے دیکھا جاتا ہے مشاہدۂ عیان سے نہیں ۔
Add new comment