خلاصہ: انسان اگر چھوٹے نقصان سے بچنے کے لئے بہت کوشش کرے، لیکن اس سے بہت بڑے نقصان سے بچنے کی پرواہ تک نہ کرے تو یہ بڑی تعجب کی بات ہے۔
کس قدر تعجب کی بات ہے کہ انسان جسم کی صحت اور بدن کی بیماریوں سے نجات پانے کے لئے کوششیں کرتا ہے اور پیسہ خرچ کرنے اور کڑوی دوا اور آپریش وغیرہ سے پرہیز اور دوری نہیں کرتا، لیکن دل کی صحت اور دل کی بیماریوں کی شفا کے لئے جو ہزاروں گنا زیادہ شدید ہیں، ان کے بارے میں کوئی کوشش نہیں کرتا اور بیماری اور اس کے علاج کے بارے میں اللہ اور رسولؐ کی خبروں کو نہ دیکھتا ہے اور نہ سنتا ہے۔
جو تکلیفیں ان بیماریوں کی وجہ سے دنیا میں دیکھتا ہے ان کو برداشت کرلیتا ہے اور جو عذاب آخرت میں اس کے لئے ہیں ان کو اپنے سے دور سمجھتا ہے یا یقین نہیں کرتا۔ کیا اللہ اور پیغمبر اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے فرامین نے اس کے لئے ایک طبیب کی بات جتنے نقصان کا امکان پیدا نہیں کیا۔ یعنی کہے کہ شاید یہ ہلاک کرنے والی بیماریاں حقیقت ہوں اور جب تک وقت باقی ہے ان کے علاج کے لئے کوشش کرے کیونکہ بڑے نقصان کی روک تھام اگرچہ امکان ہی ہو تو عقلی لحاظ سے واجب ہے۔
ہائے افسوس موت کے وقت جب غفلت کا پردہ ہٹ جائے گا اور آدمی اپنے آپ کو اور اپنی بیماری کو پالے گا اور اس کے حل کے راستے کو بند دیکھے گا پھر جتنی فریاد کرے اور افسوس کرے کہ اس نے اللہ کی بارگاہ میں کیا کچھ کیا ہے، کوئی فائدہ نہیں ہے۔ "يَا حَسْرَتَىٰ عَلَىٰ مَا فَرَّطتُ فِي جَنبِ اللَّـهِ"، "افسوس ہے اس کوتاہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی" [زمر، آیت ۵۶]
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از کتاب قلب سلیم، آیت اللہ شہید عبدالحسین دستغیب شیرازی علیہ الرحمہ]
[ترجمہ آیت از: مولانا شیخ محسن نجفی صاحب]
Add new comment