خلاصہ: اگر ہر آدمی اسلام کے بتائے ہوئے احکام اور تعلیمات پر عمل کرے تو دل کی بیماری کا علاج تبھی ممکن ہے، ورنہ ہوسکتا ہے کہ مختلف نفسیاتی طریقے استعمال کیے جائیں لیکن دل صحت یاب نہ ہو کیونکہ ہر بیماری کی اپنی دوا ہوتی ہے اور دل کی بیماری کی دوا، اسلام کی تعلیمات ہیں۔
انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ جو اس کی آنکھ دیکھتی ہے یا اس کے کان سنتے ہیں اور دیگر اعضا سے جو کچھ کرتا ہے، اس کے دل کے لئے نقصان دہ نہ ہو اور بعض چیزوں کے نقصان دہ ہونے کو تندرست عقل اور شریعتِ مقدس مقرر کرسکتی ہے۔ کلی طور پر جو شریعتِ اسلام میں بیان ہوا ہے چاہے وہ احکام جن پر عمل ہونا چاہیے یا جن کاموں سے پرہیز کرنی چاہیے سب اس لیے ہیں کہ دل کی بیماری کو پیدا نہ ہونے دیں یا جو بیماریاں پیدا ہوچکی ہیں ان کی شفایابی ہوجائے یا دل کی انسانی کمالات کی طرف ترقی کے لئے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دین دلوں کی صحت مندی کے لئے ہے کہ جس کے ذریعے مادی اور معنوی خوش نصیبی فراہم ہوتی ہے اور دونوں جہانوں میں مکمل خوشی تک پہنچتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از کتاب قلب سلیم، آیت اللہ شہید عبدالحسین دستغیب شیرازی علیہ الرحمہ]
Add new comment