خلاصہ: انسان کا دل بھی مریض ہوجاتا ہے لہذا دل کی صحت کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔
جیسے انسان کے بدن کی صحت اور بیماری ہوتی ہے اسی طرح دل کی بھی صحت اور بیماری ہے۔ بدن کی صحت اس میں ہے کہ اس کے تمام اعضاء تندرست ہوں اور جس کام اور اثر کے لئے ان کو خلق کیا گیا ہے وہ کام اور اثر اس سے ظاہر ہو اور اس کی بیماری کسی حصہ کے ناقص ہونے یا اس کے کام اور اثر کے زائل ہوجانے سے ہے اور اس کا نتیجہ زندگی کا مشکل ہونا ہے۔
دل کی صحت مندی یہ ہے کہ انسانیت کے تمام اثرات اس سے ظاہر ہوں، اس طرح کہ برحق عقائد اور معارف و حقائق کے بارے میں اسے یقین اور اطمینان ہوں اور سب بری اور یوانی صفات سے پاک ہو۔
دل کی امراض ریب، انکار، شک، حیرت، بیجا محبت اور دشمنی، بیجا خوف اور امید، کینہ، حسد اور کنجوسی وغیرہ ہیں۔ یہ سب بیماریاں انسان کی پہلی فطرت کے خلاف ہیں۔
حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إنّ لِلجِسمِ سِتَّةَ أحوالٍ: الصِّحّةُ، والمَرضُ، والمَوتُ، والحَياةُ، والنَّومُ، واليَقَظَةُ، وكذلكَ الرُّوحُ، فحياتُها عِلمُها، ومَوتُها جَهلُها، ومَرَضُها شَكُّها، وصِحَّتُها يَقِينُها، ونَومُها غَفلَتُها، ويَقَظَتُها حِفظُها"، "یقیناً جسم کے چھ حالات ہیں: صحت اور بیماری اور موت اور حیات اور نیند اور بیداری اور روح بھی اسی طرح ہے (اس کی بھی چھ حالتیں ہیں) تو اس کی حیات اس کا علم ہے اور اس کی موت اس کی جہالت ہے اور اس کی مرض اس کا شک ہے اور اس کی صحت اس کا یقین ہے اور اس کی نیند اس کی غفلت ہے اور اس کی بیداری اس کی حفاظت ہے"۔ [بحارالانوار، ج۶۱، ص۴۱]۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از کتاب قلب سلیم، آیت اللہ شہید عبدالحسین دستغیب شیرازی علیہ الرحمہ]
[بحارالانوار، علامہ مجلسی علیہ الرحمہ]
Add new comment