خلاصہ: انسان کو چاہیے کہ دل کے گناہوں سے پرہیز کرے، کیونکہ دل کا گناہ دل کی بیماری ہے۔
قرآن کریم نے بعض آیات میں دل کے گناہ کو دل کی بیماری کہا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی دسویں آیت میں منافقین کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: "فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّـهُ مَرَضاً"، "ان کے دلوں میں (نفاق) کی ایک بیماری ہے۔ سو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا دی ہے"۔
جو دل مختلف گناہوں اور بیماریوں سے پاک ہو قرآن کریم نے اسے قلب سلیم کہا ہے اور اسے سعادت کا باعث جانتا ہے۔ سورہ شعراء آیات ۸۸، ۸۹ میں ارشاد الٰہی ہے: "يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ . إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ"، "اس روز نہ مال کچھ ائدہ دے گا اور نہ اولاد۔ سوائے اس کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کر آئے"۔
یعنی دنیاوی چیزیں جیسے مال صرف دنیاوی زندگی میں فائدہ کا باعث ہے، لیکن موت کے بعد والی زندگی کے لئے صرف قلب سلیم فائدہ مند ہے۔
جنت کے ناموں میں سے ایک نام دارالسلام ہے یعنی ان لوگوں کا گھر جو ہر بیماری اور برائی سے سلامت ہوں۔ لہذا جو لوگ گناہوں میں بیمار ہوں ان کو جہنم کےہسپتال میں اتنا رہنا پڑے گا کہ ان بیماریوں سے پاک ہوجائیں اور شفایاب ہوجائیں، پھر جنت میں داخل ہوسکیں مگر وہ بیماریاں جن کا کوئی علاج نہ ہو جیسے کفر، منافقت، اللہ اور اللہ کے اولیاء سے دشمنی۔ ایسے بیامروں کو ہمیشہ اس قیدخانہ میں رہنا پڑے گا۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[اقتباس از کتاب قلب سلیم، آیت اللہ شہید عبدالحسین دستغیب شیرازی علیہ الرحمہ]
[ترجمہ آیات از: مولانا شیخ محسن نجفی صاحب]
Add new comment