بسم اللہ الرحمن الرحیم
خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ دسواں مضمون ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ "وتَحَنَّنوا عَلى أيتامِ النّاسِ يُتَحَنَّن عَلى أيتامِكُم"[1]، "لوگوں کے یتیموں سے محبت کرو تاکہ تمہارے یتیموں سے محبت کی جائے"۔
تشریح
مقدمہ: قرآن کریم اور احادیث میں یتیموں کے حقوق کا خیال رکھنے کی بہت تاکید ہوئی ہے۔ جیسا کہ اِس خطبہ شعبانیہ میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے یتیم سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔ انسانی تقاضوں کے مطابق ہر انسان کو محبت اور توجہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور یہی انسان کی ترقی کا باعث بنتی ہے۔ یہ ضرورت بچوں میں زیادہ شدت سے پائی جاتی ہے اور والدین اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں، لیکن یتیم، بچپن سے اس نعمت سے محروم ہوتے ہیں، لہذا اسلام میں یتیم بچہ سے محبت کی بہت تاکیدہوئی ہے۔ اسی لیے یتیموں کی دیکھ بھال اور ان کی حفاظت کرنی چاہیے، اور یہ حفاظت صرف کھانے پلانے اور پہنانے کے لحاظ سے نہیں ہے بلکہ معنوی طور پر بھی ہونی چاہیے، یعنی ان کے جسمانی تقاضوں کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی روح کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا چاہیے اور ان سےپیار محبت اور شفقت کرنی چاہیے۔ یتیموں پر رحم کرنے کا اثر دوطرفہ ہے، یعنی یتیموں کو تحفظ ملتا ہے اور جو یتیم پر رحم کرتا ہے اس کو یہ فائدے حاصل ہوتے ہیں کہ اس میں پائے جانے والے تکبر، غرور اور کنجوسی جیسی اخلاقی بیماریوں کا علاج ہوجاتا ہے۔ماہ رمضان جو اللہ کی رحمت کا مہینہ ہے اس میں ہمیں چاہیے کہ یتیموں پر رحم کریں تا کہ لوگ ہمارے یتیموں پر بھی رحم کریں۔
یتیم کا مفہوم: "یتیم لغوی لحاظ سے اسے کہا جاتا ہے جس کا باپ انتقال کرجائے اور بالغ ہونے کے بعد یہ نام اس سے ہٹ جاتا ہے۔[2] اسلام کی نظر میں یتیم ان نابالغ بچوں کو کہا جاتا ہے جن کا باپ انتقال کرگیا ہو۔[3]
یتیم کے حقوق قرآن کریم کی روشنی میں: قرآن کریم نے یتیموں کے بارے میں کئی آیات میں تاکید کی ہے، جن میں سے دو آیتیں مندرجہ ذیل ہیں: "وَإِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَاََقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَاََنتُم مُّعْرِضُونَ"[4]، "اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خبردار خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپً قرابتداروں یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا. لوگوں سے اچھی باتیں کرنا نماز قائم کرنا زکوٰۃ ادا کرنا لیکن اس کے بعد تم میں سے چند کے علاوہ سب منحرف ہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض کرنے والے ہی ہو"۔
"وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَعْنَتَكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ"[5]، " اور یہ لوگ تم سے یتیموں کے بارے میں سوال کرتے ہیں تو کہہ دو کہ ان کے حال کی اصلاح بہترین بات ہے اور اگر ان سے مل چُل کر رہو تو یہ بھی تمہارے بھائی ہیں اور اللہ بہتر جانتاہے کہ مصلح کون ہے اور مفسدکون ہے اگر وہ چاہتا تو تمہیں مصیبت میں ڈال دیتا لیکن وہ صاحبِ عزّت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے"۔
یتیم کے حقوق روایات کی روشنی میں: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے ضربت کے بعد اور شہادت سے پہلے جو وصیت فرمائی،جسے مرحوم سید رضی (علیہ الرحمہ) نے نہج البلاغہ میں ذکر کیا ہے، اس وصیت میں آپؑ نے یہ بھی فرمایا: "اللّه َ اللّه َ في الأيتامِ، فلا تُغِبُّوا اَفواهَهُم، و لا يَضِيعوا بحَضرَتِكُم"[6]، "دیکھو یتیموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا اور ان کے فاقوں کی نوبت نہ آجائے اور وہ تمہاری نگاہوں کے سامنے برباد نہ ہوجائیں"۔[7]
یتیم نواز امام حضرت امام علی (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے: "ما مِن مُؤمنٍ و لا مُؤمِنَةٍ يَضَعُ يَدَهُ على رأسِ يَتيمٍ تَرَحُّما لَهُ إلاّ كَتَبَ اللّه ُ لَهُ بكُلِّ شَعرَةٍ مَرَّت يَدُهُ علَيها حَسَنَةً"[8]، "کوئی مومن مرد اور مومن عورت نہیں ہے جو اپنا ہاتھ یتیم کے سر پر رحم کرتے ہوئے رکھے مگر اللہ اس کے لئے ہر بال کے بدلہ جس پر اس کا ہاتھ پھرا، ایک نیکی لکھ دیتا ہے"۔
یتیموں کا مال کھانے کی قرآن اور احادیث میں سخت مذمت ہوئی ہے، منجملہ یہ حدیث ہے: رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: "يُبعَثُ اُناسٌ مِن قُبورِهِم يَومَ القِيامَةِ تأجَّجُ اَفواهُهُم نارا، فقيلَ لَهُ: يا رسولَ اللّه ِ، مَن هؤلاءِ؟ قالَ: الّذينَ يَأكُلونَ اَموالَ اليَتامى..."[9]، "قیامت کے دن کچھ لوگ اپنی قبروں سے اٹھیں گے جبکہ ان کے منہ سے آگ لپک رہی ہوگی، آپؐ سے عرض کیا گیا: یا رسول اللہ، وہ کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: "جو لوگ یتیموں کا مال کھا جاتے ہیں..."۔
رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے ارشاد فرمایا: "کُنْ لِلْیَتِیمِ كَالْأَبِ الرَّحِیمِ وَ اعْلَمْ أَنَّكَ تَزْرَعُ كَذَلِكَ تَحْصُدُ "[10]، "یتیم کے لئے مہربان باپ کی طرح بنو اور جان لو تم جو کاشت کروگے وہی اٹھاؤگے۔ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) مسلمانوں کے امام، رہبر و راہنما، یتیموں سے ایسا سلوک کرتے کہ آپؑ "یتیموں کے باپ" کا لقب پاگئے۔ ابوالطفیل کا کہنا ہے: میں نے ایک دن حضرت علی (علیہ السلام) کو دیکھا کہ آپؑ نے یتیموں کواپنے پاس بلایا، پھر آپؑ ان پر اس طرح مہربانی کرتے اور انہیں شہد پلاتے کہ آپؑ کے بعض اصحاب آرزو کرتے کہ اے کاش ہم بھی یتیم ہوتے۔[11]
معاشرتی اعمال کا تقابلی ردّعمل: اگرچہ اعمال کے نتائج اورثواب و سزا آخرت میں انسان کو دی جائے گی، لیکن بعض معاشرتی اعمال چاہے اچھے یا برے ایسے بھی ہیں جن کا نتیجہ اور ردّعمل اِسی دنیا میں بھی انسان کو مل جاتا ہے۔ جیسے حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "إرحَمْ تُرحَمْ"[12]، "رحم کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے"، اور جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں: "لوگوں کے یتیموں سے محبت کرو تاکہ تمہارے یتیموں سے محبت کی جائے"۔ لہذا اگر ہم نے معاشرہ کے یتیموں کے حق میں کوتاہی کی تو ایک زمانہ ایسا بھی آجائے گا کہ ہماری اولاد، لاوارث اور باپ اور لوگوں کی محبت کے بغیر رہ جائے گی۔ ہم اب زندہ ہیں، لیکن مستقبل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ اولاد کے جوان ہوجانے تک ہم زندہ رہیں یا نہ رہیں، دورِ حاضر کے اتفاقی حادثات کی کثرت بتاتی ہے کہ ہر لمحہ ہماری اولاد کے لاوارث ہوجانے کا خطرہ لاحق ہے۔ قرآن کریم نے فرمایا ہے: "وَلْيَخْشَ الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّيَّةً ضِعَافًا خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللَّهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلًا سَدِيداً"[13]، "اور ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ اگر وہ خود اپنے بعد ضعیف و ناتواں اولاد چھوڑ جاتے تو کس قدر پریشان ہوتے لہذا خدا سے ڈریں اور سیدھی سیدھی گفتگو کریں"، اس آیت سے یہ پیغام ملتا ہے کہ لوگوں کے یتیموں سے وہی سلوک کرو جو تم لوگ پسند کرتے ہو کہ مستقبل میں لوگ تمہارے یتیموں سے سلوک کریں۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَنْ رَعَى الأيْتامَ رُعِيَ في بَنيهِ"[14]، "جو شخص یتیموں کا خیال رکھے گا، اس کی اولاد کا خیال رکھا جائے گا" اور اس کا دوسرا رُخ بھی آپؑ کے فرمان کی روشنی میں دیکھا جاسکتا ہے، آپؑ فرماتے ہیں: "من ظَلم يتيماً عَقّ اَولاده"[15]، "جو کسی یتیم پر ظلم کرے اس نے اپنی اولاد کو عاق کردیا ہے"، یعنی یتیم پر ظلم کرنا باعث بنتا ہے کہ ظالم اپنی اولاد اور چھوٹے بچوں سے احسان کا سلسلہ بن کردے اور آخرکار اپنی اولاد پر ظلم کردے، اس نے یتیم پر ظلم کیا تو کل اس کی اولاد پر ظلم کیا جائے گا۔
نتیجہ: ماہ رمضان رحمت پروردگار کو حاصل کرنے کا خاص مہینہ ہے، اس مہینہ میں یتیموں سے محبت کرتے ہوئے اللہ کی محبت اور رحمت کو حاصل کیا جاسکتا ہے، نیز ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ دنیا میں اعمال کا تقابلی ردّعمل بھی ہوتا ہے، اگر ہم یتیموں پر رحم کریں گے تو کل ہمارے یتیموں پر بھی رحم کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.
[2] لسان العرب، ابن منظور، ج 12، ص 645۔
[3] مجمع البیان، علامه طبرسی، ج1، ص477۔
[4] بقرہ، آیت83۔
[5] سورہ بقرہ، آیت 220۔
[6] نہج البلاغہ، مکتوب 47۔
[7] ترجمہ نہج البلاغہ، علامہ ذیشان حیدر جوادی (اعلی اللہ مقامہ)۔
[8] ثواب الأعمال، شیخ صدوق، ج1، ص199۔
[9] میزان الحکمہ، محمدی ری شہری، ج13، ص567، بنقل از تفسیر عیاشی۔
[10] بحارالأنوار، ج74، ص173۔
[11] بحارالانوار، ج41، ص29۔
[12] امالی شیخ صدوق، ص278۔
[13] نساء، آیت 9۔
[14] غرر الحكم، آمدی، ج1، ص601۔
[15] غرر الحكم، ج1، ص581۔
خلاصہ: خطبہ شعبانیہ کے اس فقرہ کے بارے میں وضاحت کی گئی ہے جس میں رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے یتیموں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے: "لوگوں کے یتیموں سے محبت کرو تاکہ تمہارے یتیموں سے محبت کی جائے"۔ لہذا انسان کے بعض معاشرتی اعمال کا تقابلی ردّعمل ہوا کرتا ہے۔
Add new comment