خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کی تشریح کی جارہی ہے۔ رسالت کی تین قسمیں ہیں، ان میں سے جو رسالت اہل بیت (علیہم السلام) سے متعلق ہے وہ پہلی قسم نہیں ہے کہ جس کا تعلق اولوالعزم انبیاء (علیہم السلام) سے ہے اور نہ تیسری قسم ہے جو عام رسالت ہے، بلکہ دوسری قسم ہے جس کی مثال کے ساتھ اس مضمون میں وضاحت کی جارہی ہے۔
زیارت جامعہ کبیرہ میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ يا اَهْلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ، وَ مَوْضِعَ الرِّسالَةِ"، " آپ پر سلام ہو اے نبوت کا گھرانہ، اور رسالت کا مقام"۔
نبوّت اور رسالت ایسے الفاظ ہیں جو پیغمبروںؑ کے لئے استعمال ہوتے ہیں، لیکن یہ دونوں لفظ بالکل برابر نہیں ہیں، کیونکہ "نبی" اللہ کی طرف سے خبر دیتا ہے، لیکن لوگوں تک پہنچانے (ابلاغ) کی ذمہ داری اس پر نہیں ہوتی، مگر "رسول" وہ پیغمبر ہے جو اللہ کی طرف سے بات کرتا ہے اور اللہ کی بات کو لوگوں تک پہنچاتا ہے، لہذا مقام رسالت، مقام نبوّت سے بالاتر ہے۔ رسالت کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ ۔ وحی کو پہنچانے کی رسالت۔
۲۔ وحی کو واضح طور پر بیان کرنے والی خاص رسالت۔
۳۔ وحی کو پہنچانے کی عام رسالت۔
اِن تین قسموں میں سے اہل بیت (علیہم السلام) کی رسالت دوسری قسم ہے۔ اس کی مثال سورہ توبہ کی پہلی آیات کے ابلاغ اور پہنچانے والا واقعہ ہے۔جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو مشرکین کی طرف بھیجا کہ آنحضرتؑ، اللہ اور اس کے رسولؐ کی مشرکین سے بیزاری کا اعلان کردیں۔ جبرئیل (علیہ السلام) رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم لائے: "لا يُؤَدّى عَنكَ إلّا أنتَ أو رَجُلٌ مِنكَ"، (پیغام کو) آپؐ کی طرف سے سوائے آپؐ کے یا وہ مرد جو آپؐ (کے خاندان) میں سے ہے، کوئی نہ پہنچائے۔ یہ جملہ مطلق ہے یعنی اعلانِ برائت کا حکم دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہر اُس حکم کو شامل ہوتا ہے جس کے لئے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) یا آپؐ کے گھرانے میں سے کسی مرد کی ضرورت ہے کہ وہ حکمِ الٰہی کو پہنچائے۔ لہذا جو احکام الٰہی لوگوں تک اِبلاغ اور پہنچائے نہیں گئے، وہ احکام یا خود رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) پہنچائیں یا آپؐ کی اہل بیت (علیہم السلام)، اور ان حضراتؑ کے علاوہ کسی تیسرے شخص کو حق حاصل نہیں ہے کہ وہ احکام الٰہی کا ابتدائی طور پر مبلّغ ہو۔ یہ اہل بیت (علیہم السلام) کے لئے بہت عظیم فضیلت ہے، جس کی روشنی میں "موضع الرسالۃ"، "رسالت کا مقام" کے فقرے کو سمجھا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: تفسير قرآن ناطق، محمدی ری شہری]
Add new comment