خلاصہ: اس مضمون میں منافقین اور بنی اسرائیل کے امتحان کا قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں تذکرہ کیا جارہا ہے۔
سورہ توبہ، آیت ۱۲۶ میں ارشاد الٰہی ہے: "أَوَلَا يَرَوْنَ أَنَّهُمْ يُفْتَنُونَ فِي كُلِّ عَامٍ مَّرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ لَا يَتُوبُونَ وَلَا هُمْ يَذَّكَّرُونَ"، "کیا (یہ لوگ) نہیں دیکھتے کہ وہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں۔ پھر بھی یہ نہ توبہ کرتے ہیں اور نہ نصیحت حاصل کرتے ہیں"۔
اس آیت کا شان نزول، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے کے منافقوں کے بارے میں ہے کہ وہ ان پے در پے آزمائشوں اور امتحانوں کے باوجود توبہ کیوں نہیں کرتے اور نصیحت کیوں نہیں لیتے۔
سورہ طہ آیت ۸۵ اور ۹۰ میں بنی اسرائیل کے امتحان کے بارے میں ارشاد الٰہی ہورہا ہے: "قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ... وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَارُونُ مِن قَبْلُ يَا قَوْمِ إِنَّمَا فُتِنتُم بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَٰنُ فَاتَّبِعُونِي وَأَطِيعُوا أَمْرِي"، "ارشاد ہوا۔ ہم نے تمہارے بعد تمہاری قوم کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ اور سامری نے انہیں گمراہ کر دیا ہے"۔
جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر اللہ کی میقات کے لئے گئے تو سامری نے سونے کا گوسالہ بنا کر بنی اسرائیل کو گمراہ کردیا اور حضرت ہارون (علیہ السلام) جو حضرت موسی (علیہ السلام) کے جانشین تھے، آپؑ نے ان کو منع کیا، لیکن وہ اس شرک سے باز نہ آئے یہاں تک کہ وہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کو قتل کرنے کے قریب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کوہِ طور پر اس واقعہ سے حضرت موسی (علیہ السلام) کو مطلع فرمایا۔
حضرت موسی (علیہ السلام) غصہ اور حزن کی حالت میں اپنی قوم کی طرف پلٹے اور ان کی مذمت کی۔ بنابریں اللہ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضا ہے کہ لوگوں کے ایمان کا امتحان لے تا کہ لوگوں کے ایمان کی حقیقت عملاً ظاہر ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔
[ترجمہ آیات از: مولانا محمد حسین نجفی صاحب]
Add new comment