خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے تیسواں مضمون تحریر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز اور ہر کسی سے بے نیاز ہے، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو جو خلق کیا ہے تو اسے مخلوق کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرمایا: " كَوَّنَهٰا بِقُدْرَتِهِ وَ ذَرَأهٰا بِمَشيَّتِهِ مِنْ غَيْرِ حاجَةٍ إلی تَكْوينِهٰا، وَ لافائِدَةٍ لَهُ فی تَصْويرِهٰا"، "اللہ نے اپنی قدرت کے ذریعے چیزوں کو ایجاد کیا اور ان کو اپنی مشیّت سے پیدا کیا بغیر اس کے کہ (اسے) ان کی خلقت کی کوئی ضرورت ہو اور ان کی صورت گری میں اسے کوئی فائدہ ہے "۔
ان فقروں میں آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے دو صفتِ ثبوتیہ بیان فرمانے کے بعد اور مقصدِ خلقت بیان کرنے سے پہلے دو چیزوں کی نفی کی ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں خلق کی ہیں، ان کی اسے کوئی ضرورت نہیں ہے۔
۲۔ اللہ تعالیٰ نے جو اُن کی تصویریں بنائی ہیں، اس میں اللہ تعالیٰ کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اس کے بعد آپؑ نے خلقت کے چند مقاصد بیان فرمائے ہیں جن کو وضاحت کے ساتھ اگلے مضامین میں بیان کیا جائے گا۔
حضرت صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) نے "مِنْ غَيْرِ حاجَةٍ ... وَ لافائِدَةٍ ..." کے الفاظ سے اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کو بیان فرمایا ہے اور قرآن کریم نے سورہ عنکبوت کی آیت ۶ میں ارشاد فرمایا ہے: "إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ"، اور نیز کئی دیگر آیات میں بھی اللہ تعالیٰ کے غنی اور بے نیاز ہونے کا تذکرہ ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے بے نیاز ہے، کیونکہ وہ ذات لامحدود کمالات کی مالک ہے تو لامحدودیت کا تقاضا یہی ہے ورنہ اگر اسے حتی ایک ذرہ کی بھی ضرورت ہو تو اس کے کمالات محدود ہوجائیں گے، جبکہ واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کمالات لامحدود ہیں۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے خطبہ ۱۹۳ میں ارشاد فرماتے ہیں: "فَإِنَّ اللهَ ـ سُبْحانَهُ وَتَعَالَى ـ خَلَقَ الْخَلْقَ حِينَ خَلَقَهُمْ غَنِيّاً عَنْ طَاعَتِهِمْ"۔
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) نے عمران صابی سے فرمایا: "لم یخلق الخلق لحاجۃ"، "اللہ نے مخلوق کو کسی ضرورت کے لئے خلق نہیں کیا"۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور محتاجی کو انسانوں میں رکھا ہے۔ انسان اپنی ذات، صفات اور اعمال کے لحاظ سے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[احتجاج، طبرسی]
[حکمت فاطمی، آیت اللہ سید عزّالدین حسینی زنجانی]
[سحر سخن و اعجاز اندیشہ، محمد تقی خلجی]
Add new comment