خلاصہ: خطبہ فدکیہ کی تشریح کرتے ہوئے اکتیسواں مضمون تحریر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی مختلف صورتیں بنائی ہیں، اس صورت گری میں خالق کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ مخلوق کا ہی فائدہ ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) نے خطبہ فدکیہ میں ارشاد فرمایا: " كَوَّنَهٰا بِقُدْرَتِهِ وَ ذَرَأهٰا بِمَشيَّتِهِ مِنْ غَيْرِ حاجَةٍ إلی تَكْوينِهٰا، وَ لافائِدَةٍ لَهُ فی تَصْويرِهٰا"، "اللہ نے اپنی قدرت کے ذریعے چیزوں کو ایجاد کیا اور ان کو اپنی مشیّت سے پیدا کیا بغیر اس کے کہ (اسے) ان کی خلقت کی کوئی ضرورت ہو اور ان کی صورت گری میں اسے کوئی فائدہ ہو"۔
تصویر، خلقت پر موقوف ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو خلق کیا، پھر ان کی صورتیں بنا کر ان کو ایک دوسرے سے الگ کیا اور قابل شناخت بنایا۔ سورہ اعراف کی گیارہویں آیت میں ارشاد الٰہی ہے: "وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ"، "بے شک ہم نے تمہاری تخلیق کا آغاز کیا اور پھر تمہاری صورت گری کی"۔
حضرت سیدۃ نساء العالمین (سلام اللہ علیہا) نے اس فقرہ میں توحید کی معرفت کا یہ درس دیا ہے کہ اللہ نے چیزوں کی جو صورت گری کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
فائدہ سے اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کے بارے میں حضرت امام حسین (علیہ السلام) دعائے عرفہ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: "الٰھی اَنْتَ الغنیُّ بذاتِکَ اَنْ یَصِلَ اِلَیْکَ النَّفْعُ مِنْکَ فَکَیْفَ لا تکونُ غَنیّاً عَنّی"، "اے میرے معبود، تو اپنی ذات میں اس سے بے نیاز ہے کہ تجھے تیری طرف سے فائدہ پہنچے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ تو مجھ سے بے نیاز نہ ہو"۔
جب انسان کوئی کام کرتا ہے تو یا اپنے فائدہ کے لئے کرتا ہے یا دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے، مگر اللہ تعالیٰ کے کام، مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے کسی کام سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اور اسے حتی اپنے کاموں سے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے مخلوقات کے لئے ہی کرتا ہے اور اپنے لیے کچھ نہیں کرتا، اس لیے کہ وہ ہر لحاظ سے غنی اور بے نیاز ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنی ذات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا جیسا کہ حضرت امام حسین (علیہ السلام) کے مذکورہ بالا فقرہ سے واضح ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ جو کام دوسروں کے لئے کرتا ہے مثلاً مخلوقات کی صورت گری، اس سے بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ زہرا (سلا م اللہ علیہا) کے مذکورہ بالا ارشاد سےواضح ہورہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[احتجاج، طبرسی]
[ترجمہ آیت از: مولانا محمد حسین نجفی]
Add new comment