خلاصہ: اصول کافی کی احادیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ دوسری حدیث ہے جس کے ترجمہ کے بعد اس کے متعلق چند نکات بیان کیے جارہے ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اصبغ ابن نباتہ نے حضرت علی (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے کہ آپؑ نے فرمایا: "هَبَطَ جَبْرَئِيلُ عَلَى آدَمَ ع فَقَالَ يَا آدَمُ إِنّي أُمِرْتُ أَنْ أُخَيّرَكَ وَاحِدَةً مِنْ ثَلَاثٍ فَاخْتَرْهَا وَ دَعِ اثْنَتَيْنِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ يَا جَبْرَئِيلُ وَ مَا الثّلَاثُ فَقَالَ الْعَقْلُ وَ الْحَيَاءُ وَ الدّينُ......."، "جبرئیل آدمؑ پر اترے تو عرض کیا: اے آدم، مجھے حکم ہوا ہے کہ آپ کو تین چیزوں میں سے ایک چیز کا اختیار دوں تو آپ اسے اختیار کرلیں اور دو کو چھوڑ دیں۔ تو آدم نے فرمایا: اے جبرئیل، وہ تین چیزیں کیا ہیں؟ تو (جبرئیل) نے عرض کیا:عقل اور حیاء اور دین۔ تو آدم نے فرمایا: یقیناً میں نے عقل کو اختیار کرلیا۔ تو جبرئیل نے حیاء اور دین سے کہا: تم دونوں واپس جاؤ اور عقل کو چھوڑ دو۔ تو ان دونوں نے کہا: اے جبرئیل، یقیناً ہمیں حکم ہوا ہے کہ ہم عقل کے ساتھ رہیں جہاں وہ رہے۔ (جبرئیل نے) کہا: لہذا اپنے کام میں مصروف رہو، اور (جبرئیل) اوپر چلے گئے۔ [الکافی، ج۱، ص۱۰، ح۲]
اس حدیث کی وضاحت میں چند نکات:
1۔ حیاء ایسی صفت ہے جو باعث بنتی ہے کہ انسان برے کاموں کو چھوڑ دے۔ عموماً انسان مذمت ہونے سے ڈرتا ہے، لہذا جس شخص میں شرم و حیاء ہو وہ برائی سے بچتا ہے، کیونکہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ لوگ اس کی مذمت کریں گے۔
2۔ جب عقل کسی چیز کی برائی کو سمجھ لے تو حیاء کی قوت سامنے آکر انسان کو برائی سے روک لیتی ہے۔
3۔ صرف عقلمند لوگوں کے پاس دین اور حیاء ہوتا ہے، لہذا کوئی شخص دینداری کا دعوی نہیں کرسکتا جبکہ اسے گناہ کرنے سے شرم نہ آتی ہو اور حرام طریقے سے لوگوں کے مال کو کھا جانے سے حیاء نہ کرتا ہو۔
4۔ عقل اور دین کے درمیان گہرا تعلق ہے، ایسا نہیں ہے کہ عقل دین کے مدمقابل ہو۔ عقل چراغ کی طرح ہے، انسان دین پر عمل کرنے کے لئے اس چراغ کا محتاج ہے۔ لہذا دین اور عقل کا باہمی تعلق چراغ اور راستے کے تعلق کی طرح ہے۔
۔۔۔۔۔
حوالہ:
[الکافی، شیخ کلینی (علیہ الرحمہ)، مطبوعہ الاسلامیہ]
Add new comment