خلاصہ: حیا کرنا انتہائی اہم مسئلہ ہے، اس موضوع پر مختلف مضامین پیش کیے جائیں گے، اِس مضمون میں حیا کی چند خصوصیات بیان کی جارہی ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
علمائے اخلاق نے حیا کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں۔ ان تعریفوں میں سے چند نکات حاصل ہوتے ہیں:
۱۔ حیا اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی برے کام سے سامنا ہو۔ (مثلاً جب کسی کی غیبت کی جارہی ہو تو انسان اس برائی سے سامنا کرتے ہوئے حیا کرتا ہے کہ جس کی غیبت کی جارہی ہے اس کے عیب کو سنے، لہذا غیبت کرنے والے کو بھی منع کرتا ہے)۔
۲۔ حیا کی حالت میں انسان کے ذہن میں انکسار (متاثر ہونا)، انفعال (تاثر)، انقباض (گھٹن)، انزجار (نفرت) اور انحصار (تنگی) کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ حیا کی کیفیت رغبت کرنے اور پسند کرنے کی کیفیت کی ضد ہے۔ (مثلاً جب حیا کرنے والا شخص دیکھے کہ کوئی آدمی ماہ رمضان میں دن کے وقت شرعی عذر کے بغیر کھا پی رہا ہے تو متاثر گھٹن اور نفرت اور تنگی کی کیفیت طاری ہوجائے گی، لہذا اسے روکنے کی کوشش کرے گا)۔
۳۔ عمل میں ایسا جوش، ایک کام کو انجام دینے کا باعث بھی ہے اور ایک کام کو چھوڑنے کا باعث بھی ہے، جس کی وجہ سے انسان کے سلوک میں توازن پیدا ہوجاتا ہے۔ (مثلاً جب حیا کرنے والا شخص کسی آدمی کو دیکھتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے حق میں کوتاہی اور لاپرواہی کرتا ہے تو وہ اپنے گریبان کو جھانک کر دیکھتا ہے کہ اگر میں بھی ایسی غلطی کا شکار ہوں تو اس کو چھوڑ کر بڑھ چڑھ کر والدین کی خدمت کروں)۔
۴۔ حیا، خوف کے زمرے میں ہے، کیونکہ کسی برے کام سے سامنا کرتے ہوئے انسان کو جو جوش آتا ہے، یا لوگوں کی مذمت کے خوف سے ہے یا اس کا ارتکاب کرنے کے خوف سے۔ البتہ بعض تعاریف میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ حیا کی وجہ، خود عمل کی برائی اور نقص ہے۔
۵۔ کسی عمل کو برا سمجھنا یا شریعت کے حکم سے ہے یا عقل کے حکم سے یا عُرف اور کسی معاشرے کے طورطریقے کی بنیاد پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[اصل مطالب ماخوذ از: پژوهشي در فرهنگ حيا، عباس پسندیدہ]
Add new comment