ہر دور میں فاسقین کی ایک تعداد ایسی رہی ہے جو دین کا لبادہ اوڑھے دین کی حرمت کو پامال کرتے رہے ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان فاسد جرثوموں پر کڑی نگاہ رکھیں اور بصیرت دینی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسے فتنوں کو جڑسے اکھاڑ پھیکیں جو دین کو رٹ تو چکے ہیں مگر ہضم نہیں کرپائے،حیلہ ھای شرعی کو اپنی عیاشی،اور رخصت اخلاقی کو بطور بہانہ پیش پیش رکھتے ہیں۔ اسی تناظر میں امام المتقین(ع) کا مندرجہ ذیل بیان بطور عبرت پیش خدمت ہے۔
حروف کو ایک خاص ترتیب سے یکجا کیا جائے تو الفاظ بنتے ہیں،اسی نہج پر الفاظ اکٹھا ہوں تو جملے بنتے ہیں، پھر جملوں کی عمدہ ترتیب سے مضامین اور کتابیں وجود میں آتی ہیں اسی طرح امیر المؤمنین(ع) نے فرد سے افراد اور افراد سے معاشرے کا جو مدبرانہ نقشہ پیش کیا ہے وہ فقط کوفے،جزیرہ نمائے عرب، عالم اسلام، ہی نہیں بلکہ انسانی نفسیات کا ایک آفاقی منظر نامہ؛ بلکہ خلوت نامہ ہے جسمیں ہر دور کی اہرمنیت کے تار چاہے وہ جس شکل میں بھی ہوں ایک تلخ حقیقت کی طرح چِھیڑے ضرور گئے ہیں تاکہ ہم عبرت لیں نہ کہ مقام عبرت بن جائیں،بہر حال، اسی تناظر میں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئےامیر المؤمنین(ع) کے مندرجہ ذیل بیان کو ملاحظہ فرمائیں:
ایک شخص وہ بھی ہے جس نے اپنا نام عالم رکھ لیا ہے حالانکہ علم سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔جاہلوں سے جہالت کو حاصل کیا ہے اور گمراہوں سے گمراہی کو۔لوگوں کے واسطے دھوکہ کے پھندےاور مکرو فریب کے جال بچھادئیے ہیں۔کتاب کی تاویل اپنی رائے کے مطابق کی ہے اور حق کو اپنے خواہشات کی طرف موڑدیا ہے۔لوگوں کو بڑے بڑے جرائم کی طرف سے محفوظ بناتا ہے اور ان کے لئے گناہان کبیرہ کو بھی آسان بنا دیتا ہے۔کہتا یہی ہے کہ میں شبہات کے مواقع پر توقف کرتا ہوں لیکن واقعاً انہیں میں گر پڑتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ میں بدعتوں سے الگ رہتا ہوں حالانکہ انہیں کے درمیان اٹھتا بیٹھتا ہے اس کی صورت انسانوں جیسی ہے لیکن دل جانوروں جیسا ہے ۔نہ ہدایت کے دروازوں کو پہچانتا ہے کہ اس کا اتباع کرے اور نہ گمراہی کے راستہ کو جانتا ہے کہ اس سے الگ رہے۔یہ در حقیقت ایک چلتی پھرتی میت ہے اور کچھ نہیں ہے۔
[نہج البلاغہ خطبہ۸۷]
Add new comment