خلاصہ: زیارت جامعہ کبیرہ کے پہلے فقرہ سے متعلق چار نکات کا اس مضمون میں تذکرہ کیا جارہا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیارت جامعہ کبیرہ جو اس عظیم فقرہ سے شروع ہورہی ہے: "السلام علیکم یا اھلَ بیت النبوّۃ"، اس سے چند ماخوذہ نکات کا اس مضمون میں تذکرہ کیا جارہا ہے:
۱۔ زیارت کا آغاز "السلام علیکم" سے ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ زیارت نامہ پڑھنے کے وقت، اہل بیت (علیہم السلام) حاضر ہوتے ہیں، لہذا ہمیں چاہیے کہ ان حضرات (علیہم السلام) کو حاضر سمجھیں اور کھڑے ہونے، بات کرنے اور دیکھنے کے ادب کا خیال رکھیں۔
۲۔ "السلام علیکم" کا خوبصورت جملہ، الٰہی ہدیہ ہے کہ ہم حتی اہل بیت (علیہم السلام) کو بھی اس جملہ سے پکارتے ہیں، بنابریں اس قیمتی ہدیہ کی قدر سمجھنی چاہیے اور ایک دوسرے کو سلام کرنے میں کنجوسی نہ کی جائے۔
۳۔ پہلا شخص جس نے اہل بیت (علیہم السلام) کو "السلام علیکم" کے جملے سے مخاطب کیا، رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) تھے۔
۴۔ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعض رشتہ داروں سے فرمایا: "فَنَحنُ بَيتُ النُّبُوَّةِ وَ مَعدِنُ الحِكمَةِ"، "لہذا ہم نبوت کا گھرانہ اور حکمت کا معدن ہیں"، آپؑ کا یہ جملہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ "نبوت" سے منسلک ہونے کی اہمیت ہے نہ کہ آنحضرتؐ سے صرف رشتہ داری کافی ہو۔
۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[ماخوذ از: تفسیر قرآن ناطق، محمدی ری شہری، ص47، 50]
Add new comment