خلاصہ: سلام کے معنی کی بنیاد پر اس مضمون میں، اہل بیت (علیہم السلام) پر سلام بھیجنے کے تقاضے کے سلسلے میں گفتگو کی جارہی ہے، تا کہ اس تقاضے پر عمل کرتے ہوئے، ہم جب اہل بیت (علیہم السلام) کو سلام کرتے ہیں تو اپنے سلام میں سچے ہوں، یعنی ہم حقیقی طور پر سلام کرپائیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیارت جامعہ کبیرہ کی ابتدا میں حضرت امام علی النقی الہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "السَّلامُ عَلَيْكُمْ يا أهلَ بَيْتِ النُّبُوَّةِ"۔
سابقہ مضامین میں سلام کے معنی کی وضاحت کی گئی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ہم کسی آدمی کو سلام کرتے ہیں تو اس کے لئے اپنی طرف سے ہر طرح کی سلامتی اور امن و امان کی فراہمی اور نیز اپنی طرف سے اسے کسی بھی طرح کے نقصان کے پہنچنے سے تحفظ کا اعلان کررہے ہیں۔ اسی معنی کی بنیاد پر جب کوئی زائر، اہل بیت (علیہم السلام) میں سے کسی حضرتؑ کی بارگاہ میں جاکر یا دور سے سلام کرتا ہے تو اسے ایسی حالت میں ہونا چاہیے کہ اس کی طرف سے حضرتؑ کو کوئی صدمہ، اذیت اور تکلیف نہ پہنچے، نہ اس لمحہ میں اور نہ اس کے بعد۔
ادھر سے یہ بات بھی واضح ہے کہ واحد چیز جو اہل بیت (علیہم السلام) کی رضامندی اور خشنودی کا باعث ہے، لوگوں کی دینداری اور اللہ کے امر و نہی کی اطاعت ہے، اور واحد چیز جو ان حضراتؑ کی نفرت، اذیت اور تکلیف کا سبب بنتی ہے وہ اللہ تعالٰی کے امر و نہی کی مخالفت اور اخلاقی برے صفات میں آلودہ ہونا ہے، جیسے: تکبر، ریا، لالچ، کنجوسی، حسد، مال و مقام کی محبت وغیرہ۔
لہذا زائر شخص کو چاہیے کہ "السلام علیک" کہتے وقت، سوچ، اخلاق اور عمل کے لحاظ سے ایسا ہو کہ معصومؑ کی اذیت اور تکلیف کا باعث نہ بنے۔ اپنے دل کو توبہ کے پانی سے دھوئے اور ندامت کے آنسو بہائے تاکہ اپنے سلام میں سچا ہو، ورنہ وہ اپنی بات کی ابتدا ہی میں معصومؑ سے جھوٹ بول رہا ہے۔
واضح ہے کہ ایسی صداقت کی کیفیت کو حاصل کرنا، صرف اللہ کی توفیق اور نیت میں اخلاص کے ذریعے ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
[ماخوذ از: شرح زیارت جامعہ کبیرہ، حجت الاسلام سید محمد ضیاء آبادی]
Add new comment