خلاصہ: ولایت و محبت کا عمل سے گہرا تعلق ہے، محبت کا دعویدار کو عمل کے ذریعے ثابت کرنا چاہیے کہ اسے اہل بیت (علیہم السلام) سے کس قدر محبت ہے، نہ یہ کہ زبانی دعوی ہو اور عمل ولایت و محبت کے خلاف۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت کے دو پہلو ہیں:
ایک پہلو میں ولی، امام اور رہبر ہے جو لوگوں کی ہدایت کرتا ہے اور جن مسائل کی ضرورت ہو، لوگوں کو بیان کرتا ہے۔ دشمن کے خطروں اور سازشوں سے مسلمانوں کو ہوشیار اور بیدار کرتا ہے، معاشرہ میں نظم قائم کرتا ہے، مظلومین کے حقوق کو برآمد کرتا ہے، اللہ کی حدود کو جاری کرتا ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے۔
دوسرے پہلو میں لوگ ہیں جن کو کوشش کرنا چاہیے کہ اپنی بات، کردار، عقائد اور افکار کو معصومین (علیہم السلام) کے نظریے کے مطابق ڈھالیں اور ان کے نقش قدم پر گامزن رہیں ورنہ ان عظیم ہستیوں کے حکم کی مخالفت اور طرح طرح کے گناہ اور برائیاں کرکے ان کی ولایت و محبت کا دعوی نہیں کیا جاسکتا۔ [آیات ولایت در قرآن، ص71]
کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالٰی کی نافرمانی کرے اور لوگوں کے حقوق پر قبضہ کرے اور پھر اس بات کا بھی دعویدار ہو کہ میں حضرت علی (علیہ السلام) اور اہل بیت (علیہم السلام) کی محبت کا دم بھرتا ہوں، کیا اس ولایت و محبت کا ان برے اعمال سے کوئی تعلق ہے؟! نہیں، یہ جھوٹی محبت اور زبانی دعوی ہے، کیونکہ محبت کا تقاضہ ہی اطاعت اور فرمانبرداری ہے، بنابریں جو شخص جتنا اہل بیت (علیہم السلام) کا فرمانبردار ہوگا اتنا ہی اپنی ولایت و محبت کا ثبوت پیش کررہا ہے اور جتنا نافرمان ہوگا اتنا ہی ان حضراتؑ کی ولایت سے مخالفت کررہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[ماخوذ از: آیات ولایت در قرآن، آیت اللہ مکارم شیرازی]
Add new comment