و کان فی وصیتہ صلی اللہ علیہ و آلہ لعلی علیہ السلام: «وَ عَلَیکَ بِتَلاوَة القُرآن عَلی کُلِّ حالٍ»
حضور قرآن کی تلاوت کی وصیت کر رہے ہیں۔
قرآن کے ساتھ مانوس ہونا چاہیے
اگر اسلامی معاشرہ میں- اب ہمارے ملک میں- لوگوں کی ایک جم غفیر، قرآن سے مانوس رہیں
اس طرح کہ قرآنی مسائل ان کے ذہنوں میں موجود ہو اور زندہ ہو
تو میری نظر میں، اسلامی جدو جہد کی کامیابی یقینی ہے۔
البتہ یہ نہیں کہتے کہ سارے لوگ، اگر سب لوگ اس طرح کریں تو زیادہ بہتر ہے ۔
لیکن، اس لئے کہ واقعیت کو مدنظر رکھ کر بات کی جائے تو ایک جم غفیر ہمارے ملک میں قرآن سے مانوس رہیں۔
یہ کامیابی یقینی نہیں ہوسکتی مگر جب یہ جم غفیر، قرآن سے مسلسل مانوس رہیں۔
قرآن کی تلاوت صرف ماہ مبارک رمضان کے لئے نہیں، انسان قرآن کریم سے مسلسل مانوس رہے۔
لہذا حضور نے فرمایا: «وَ عَلَیکَ بِتَلاوَة القُرآن عَلی کُلِّ حالٍ»: ہر حال میں تلاوت قرآن کیا کرو،
یعنی: سفر میں، وطن میں، گھر میں، گھر سے باہر، جب بھی وقت ملے قرآن کی تلاوت کرو،
اگر کوئی حافظ قرآن ہو تو اس کے لئے زیادہ آسان ہے،
جو لوگ حافظ قرآن نہیں ہیں ان کے لئے طریقہ کار یہ ہے کہ:
اپنے اوپر فرض قرار دیں اور ذمہ داری سمجھیں کہ ہر روز قرآن کی کچھ آیات کی تلاوت کریں۔
Add new comment