تلاوت قرآن کریم
«حُبِّبَ إلَیَّ من دُنیاکُم ثَلاثٌ: تِلاوَةُ کِتابِ اللّهِ و النَّظَرُ فی وَجْهِ رَسولِ اللّہِ و الإنفاقُ فی سَبیلِ اللّه»
(وقایع الایام، ص 295)
نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم)
«إذا أحَبَّ أحدُكُم أن يُحَدِّثَ رَبَّهُ فَلْيَقرَأْ القرآنَ»
تم میں سے جو شخص پسند کرتا ہے کہ اپنے رب سے بات کرے تو قرآن کی تلاوت کیا کرے۔
(كنزالعمال، ج 21 ص510، ح 2257)
و کان فی وصیتہ صلی اللہ علیہ و آلہ لعلی علیہ السلام: «وَ عَلَیکَ بِتَلاوَة القُرآن عَلی کُلِّ حالٍ»
حضور قرآن کی تلاوت کی وصیت کر رہے ہیں۔
قرآن کے ساتھ مانوس ہونا چاہیے
اگر اسلامی معاشرہ میں- اب ہمارے ملک میں- لوگوں کی ایک جم غفیر، قرآن سے مانوس رہیں
نبی اکرم (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم):
« و من تلا فیه آیة من القرآن، کان له مثل اجر من ختم القرآن فی غیره من الشهور. »
«جو شخص ماہ مبارک رمضان میں ایک آیت کی تلاوت کرے، اس کے لئے اس شخص کے اجر کی طرح ہوگا جس نے دوسرے مہینوں میں پورے قرآن کی تلاوت کی ہو۔»
پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم):
«اِنَّ البَيتَ اِذا كَثُرَ فيهِ تِلاوَةُ القُرآنِ كَثُرَ خَيرُهُ وَ اتَّسَعَ اَهلُهُ وَ اَضاءَ لاَهلِ السَّماءِ كَما تُضى ءُ نُجومُ السَّماءِ لاَهلِ الدُّنيا»
اصول كافى،ج2، ص610
" قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فِي الْمُصْحَفِ تُخَفِّفُ الْعَذَابَ عَنِ الْوَالِدَيْنِ وَ لَوْ كَانَا كَافِرَيْنِ"
امام جعفر صادق (علیہ السلام) کا ارشاد گرامی ہے:
قرآن کریم میں دیکھ کر تلاوت کرنا، والدین کے عذاب کو کم کردیتا ہے، اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں؛
خلاصہ: قرآن کریم کا ایک بلند درجہ ہے اور وہ درجہ بھی ہے جو لوگوں کے سامنے ہے، ان دونوں درجوں کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہوا ہے۔