الحمد للہ رب العالمین
و عن النبی صلّی اللہ علیہ و آلہ: «سید القوم خادمہم»
پہلا معنا: جو شخص سب سے زیادہ خدمت کرے وہ سروری کا زیادہ حقدار ہے۔
لہذا اگر جاننا چاہیں کہ کسی گروہ کا سرور کون ہے؟ تو کسی کے حسب و نسب، نام اور پہچان کو نہ دیکھیں، بلکہ یہ دیکھیں کہ کون اس قوم کی زیادہ خدمت کرتا ہے؟ وہی قوم کا سرور ہے۔
دوسرا معنا: جو قوم کا کسی بھی وجہ سے سرور ہے اور اسے سیادت اور قیادت دی گئی ہو، اسے چاہیے کہ اس قوم کا خادم ہو۔
بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ حکام، لوگوں کے نوکر ہوتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ نوکر کا لفظ استعمال کرنا، صحیح نہیں ہے، ہم کہتے ہیں کہ یہ حدیث تو خود رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) کا فرمان گرامی ہے۔
خادم یعنی نوکر،
اس حدیث میں لوگوں کی خدمت کرنے کی اہمیت بیان ہو رہی ہے، کہ اسلامی تعلیمات کی آئینہ میں قوم کی خدمت کرنا، لوگوں کے لئے مشکل کاٹنا، لوگوں کو فائدہ پہنچانا، کتنی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
ہمارے ذہنوں میں جو ریاست اور سروری پانے کا غلط تصور پایا جاتا ہے، اس حدیث سے اس غلط تصور کے باطل ہونا بھی ثابت ہوتا ہے۔
جب کسی آفس میں، کسی گروہ کا رئیس منتخب کیا جاتا ہے تو رئیس کے ذہن میں اس کی شخصیت کے متعلق ایک ایسا غلط تصور وجود میں آتا ہے کہ گویا وہ ایک منفرد شخص ہے اسے ایک خاص حیثیت حاصل ہے، نہیں، ایسا نہیں
حضور (صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم) فرماتے ہیں کہ: جب کسی قوم کا، کسی جگہ کا عہدہ ملے تو فوری طور پر تم پر این ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ اپنے ماتحت افراد کی خدمت کرنا ہے،
دیکھیں یہ بات کہاں اور جو آجکل کے مغربی سیاستدانوں کی رائج سیاست کہاں جو عہدہ کی کرسی پر بیٹھتے ہی گویا اس کے اردگرد مختلف انحصاری حیثیتوں کا مجموعہ وجود میں آجاتا ہے جس میں کسی کا کوئی عمل و دخل نہیں ہوتا اور اس کے کاموں پر کسی قسم کا اعتراض بھی نہیں کیا جاسکتا۔
جبکہ اگر صدارت مل جاتی ہے یا کوئی بھی عہدہ مل جاتا ہے تو آپ کی ذمہ داری خدمت کرنا ہے، یہ دوسرے معنا کے مطابق ہے
اور پہلے معنا کے مطابق ہم اگر دیکھنا چاہیں کہ کون سب سے زیادہ خدمت کرتا ہے تو جو سب سے زیادہ خدمت کرے بے شک وہی سرور اور قائد ہے۔
Add new comment