خلاصہ: اللہ تعالی کے صفات ہر طرح کے نقص سے پاک و منزہ ہیں، جب انسان کسی پر رحمت کرتا ہے تو ہوسکتا ہے اس کے ساتھ نقص بھی پایا جائے، لیکن اللہ کی رحمت میں نقص نہیں ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جن صفات کی اللہ تعالٰی سے نسبت دی جاتی ہے، وہ صفات نقص سے پاک و منزہ ہیں، اور انسانی صفات میں جو نقص پائے جاتے ہیں، پروردگار متعال کے صفات میں وہ نقائص نہیں پائے جاتے اور صرف اصل کمالات اللہ تعالٰی کے لئے ہیں۔ مثلاً جب آدمی کسی شخص کو دیکھتا ہے کہ وہ کسی چیز کا محتاج ہے تو پہلے متاثر ہوتا ہے اور اس کے دل میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور اس تاثر کی بنیاد پر اس ضرورتمند کی مدد کرتا ہے۔ یہاں پر انسان کے لئے جو کمال کا باعث ہے، وہ ضرورتمند کی مدد ہی ہے اور دل کا متاثر ہونا، انسان کے وجودی نقائص سے جنم لیتا ہے جسے کمال نہیں سمجھنا چاہیے۔ انسانی تعلّقات میں ضرورتمند کی مدد کرنے میں ایک اور نقص بھی پایا جاتا ہے جو یہ ہے کہ اکثر مدد کرنے والے اپنے اس قلبی تاثر کو دور کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں نہ کہ دینی ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش، دوسرے لفظوں میں: ان کی مدد، محتاج پر ترحم کرنے اور ترسنے کی وجہ سے ہے، نہ کہ انسان کے احترام کے لئے۔ ضرورتمند کی مدد کرنے کے ذریعے قلبی تاثر کو دور کرنا، رحمت کی حقیقت اور جوہر کا حصہ نہیں ہے، بلکہ انسان کے نقص سے جنم لیتا ہے۔
اللہ تعالٰی کی رحمت کا نقص سے پاک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی متاثر ہونے کے بغیر ضرورتمندوں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور انہیں عطا اور افاضہ کرتا ہے۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جو انسان کمال کے بلند درجات پر پہنچ جاتا ہے تو وہ ضرورتمند کی مدد، قلبی طور پر متاثر ہونے اور اس کی حالت پر ترسنے کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ صرف اللہ کی رضا کے لئے مدد کرتا ہے، کیونکہ اس کا دل صرف اللہ کی محبت سے بھرا ہوتا ہے تو کہتا ہے: "...قلبی بحبّک متیّماً"، اسی لیے جب ضرورتمند کی مدد کرتا ہے تو اس کا کہنا یہ ہوتا ہے: "إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُوراً"۔ (سورہ دہر، آیت 9)۔ لہذا انسان ایسے عظیم مقام تک پہنچ سکتا ہے کہ دوسروں پر رحمت کرتے ہوئے اس نقص سے پاک ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[ماخوذ از: تفسیر تسنیم]
[ماخوذ از: درس تفسیر استاد حاج سید مجتبي نورمفیدي، جلسہ 7]
Add new comment