خلاصہ: ہم کیونکہ زمان و مکان میں زندگی بسر کرتے ہیں تو اول و آخر جیسے الفاظ کو بھی زمان و مکان کے لحاظ سے دیکھتے ہیں، مگر اللہ تعالی کے اول و آخر ہونے کا مطلب اور ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
صحیفہ سجادیہ کی تشریح کرتے ہوئے پہلا مضمون پہلی دعا کے پہلے فقرے کے بارے میں تحریر کیا جارہا ہے۔
حضرت امام سجاد (علیہ السلام) پہلی دعا میں اللہ کی اس طرح حمد فرما رہے ہیں: "الحَمْدُ لِلَّهِ الْأَوَّلِ بِلَا أَوَّلٍ كَانَ قَبْلَهُ و الآخِرِ بِلَا آخِرٍ يَكُونُ بعَدَهُ"، "سب تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو ایسا اوّل ہے جس کے پہلے کوئی اوّل نہ تھا اور ایسا آخر ہے جس کے بعد کوئی آخر نہ ہوگا"۔
تشریح:
الحمدللہ: حمد، نیک اختیاری صفات کی وجہ سے تعریف کرنے کو کہا جاتا ہے۔مدح، نیک اختیاری اور غیر اختیاری صفات کی وجہ سے تعریف کرنے کو کہا جاتا ہے اور شکر، نعمت دینے والے کی نعمت دینے کی وجہ سے اس کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے۔ حمد، مدح اور شکر کے درمیان پائے جانے والے فرق اور حمد پر "الف لام" کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ سب تعریفیں اس مقدس ذات کے لئے مخصوص ہیں جو اپنے ارادہ اور اختیار سے سب مخلوقات کا خالق ہے، لہذا جس مخلوق کی بھی تعریف ہو، چاہے اس مخلوق کی ذات کی یا اس کے نیک اختیاری صفات کی یا اس کے نیک اختیاری افعال کی، تو وہ تعریف درحقیقت اللہ تعالٰی کی ہوئی ہے۔ [ماخوذ از: تفسير و شرح صحيفه سجاديه، ج 1، ص1]
الاوّل بلا اوّل: یعنی ثناء مختص ہے اس ذات سے جس کی صفت یہ ہے کہ وہ ہر چیز سے پہلے ہے بغیر اس کے کہ کوئی چیز اس سے پہلے ہو اور ہر چیز کے بعد ہے بغیر اس کے کہ کوئی چیز اس کے بعد ہو۔ یہ فقرہ اس بات کی نشاندہی کررہا ہے کہ اللہ کی پاک ذات میں تبدیلی کی صفت نہیں ہے جبکہ مخلوقات میں یہ صفت پائی جاتی ہے۔ [ماخوذ از: شرح صحیفہ سجادیہ، ص31]
اللہ تعالیٰ کے یہ دو صفات یعنی الاول اور الآخر قرآن کریم میں صرف ایک بار ذکر ہوئے ہیں۔ سورہ حدید کی تیسری آیت میں ارشاد الٰہی ہے: "هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ "، "وہی اول ہے اور وہی آخر، وہی ظاہرہے اور وہی باطن اور وہ ہر چیز کا خوب جاننے والا ہے"۔
۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[تفسير و شرح صحيفه سجاديه، حسین انصاریان]
[شرح صحیفہ سجادیہ، مدرسی چاردہی]
Add new comment