نہج البلاغہ، فصاحت و بلاغت کا کوہِ بلند

Mon, 07/09/2018 - 05:47

خلاصہ: نہج البلاغہ کلام کی ایسی بلندی پر فائز ہے کہ ہر تشنہ لب کو آبِ حیات اور حق کے ہر جستجو کرنے والے کو صراط مستقیم اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کے لئے حق کو پہچاننے کا چراغ جلاتا ہے، ہر سونے والے غافل کو جگا کر اسے انسانی اقدار کی بلندیوں کی طرف ہدایت کرتا ہے اور انسان کی زندگی کے ہر موڑ پر پروردگار کی معرفت کے ایسے منارِنور قائم کرتا ہے کہ جس کے ضمیر میں کچھ سانس ابھی باقی ہوں تو وہ اپنی پاک فطرت کی طرف پلٹ کر نجات پاسکتا ہے۔

نہج البلاغہ، فصاحت و بلاغت کا کوہِ بلند

بسم اللہ الرحمن الرحیم

نہج البلاغہ، امیرِ بیان، امیرکلام، امیرالمومنین (علیہ السلام) کے کلام کا وہ مجموعہ ہے جسے سید رضی (علیہ الرحمہ) نے بلاغت کے معیار اور فصاحت کے میزان پر ناپ تول کر منتخب کیا ہے۔ یہ حقائق اور علوم کا وہ کوہِ بلند ہے کہ طرزِ افکارِ بشر سے کہیں بالاتر ہے اور معارف کا وہ گہرا سمندر ہے جس میں غواصی کرنے والے اپنی حددرجہ توانائیوں کے ساتھ کوشش کرتے ہوئے جتنے قیمتی گوہر حاصل کرلیتے ہیں، پھر بھی اگلے زمانے کے علماء اور عرفاء اس کی مزید گہرائی تک جب اترتے ہیں تو علم کے اس بحرِ بے کراں کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں کے سامنے اپنی عاجزی اور علم کی قلت محسوس کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کرلیتے ہیں کہ واقعی جس عظیم ہستی نے یہ بلندوبالا کلام اپنی بابرکت لبِ ولایت پر جاری کیا ہے وہی کلام کا امیر ہے لہذا وہی مومنین کا بھی امیر اور وَلیّ ہوسکتا ہے۔
نہج البلاغہ میں دو خاص صفات پائے جاتے ہیں: پہلی صفت کلام کی فصاحت، نظم و ترتیب اور خوبصورتی ہے اور دوسری صفت اس کا عجیب طرح کا اثرورسوخ ہے۔ ایسا اثرورسوخ جو نہ صرف طیب و طاہر زبان سے جاری ہونے والے زمانے میں بلکہ چودہ صدیوں کے بعد بھی سامعین اور قارئین کے دلوں میں بیداری، ذہنوں میں قوت اور فطرتوں میں نکھار پیدا کرتا ہے اور انسان کے وجود کو دنیا سے اکھیڑ کر آخرت کی حیات طیبہ کا شائق بنادیتا ہے۔
نہج البلاغہ ایسا کلام ہے کہ جب اسے شیعہ پڑھتے ہیں تو انہیں غور کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ قرآن کریم کی تفسیر بیان کی جارہی ہے اور جب اسے علامہ اہلسنّت ابن ابی الحدید معتزلی پڑھے تو اس کے خطبہ ۲۱۶ کے بارے میں کہے: میں قسم کھاتا ہوں اس کی جس کی سب امتیں قسم کھاتی ہیں کہ میں اس خطبہ کو گذشتہ پچاس سال سے اب تک ایک ہزار بار سے زائد پڑھ چکا ہوں، جب بھی میں نے اسے پڑھا ہے، میرے دل اور جسم میں اثرانداز ہوا ہے۔ [شرح نهج البلاغه، ج11 ، ص 153] اور جب اسے علامہ اہلسنّت آلوسی پڑھے تو کہے کہ نہج البلاغہ میں بعض کلام، معجزہ کے رتبہ کے قریب پائے جاتے ہیں [بنقل از آیت اللہ مکارم شیرازی، پیام امام، ج۱، ص۳۴]
اور جب اسے جرج جرداق عیسائی پڑھے تو وہ اس میں اس قدر محو و مبہوت ہوجائے کہ اسے کہنا پڑے کہ یہ کلام، خالق کے کلام سے نیچے اور مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے۔ [صوت‌ العداله‌ الانسانیه، ج۱، ص۴۷]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[ابن ابی الحدید ، شرح نهج البلاغه،داراحیاء الکتب العربیه، 1961م، ج11 ، ص 153]۔
[مکارم شیرازی، پیام امام، ۱۳۷۵ش، ج۱، ص۳۴]۔
[جرج جرداق، صوت‌ العداله‌ الانسانیه، ۱۹۷۰م، ج۱، ص۴۷]۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 4 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 63