خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کے پہلے فقرہ "الحَمْدُ للهِ الَّذَي لاَ يَبْلُغُ مِدْحَتَهُ القَائِلُونَ" کی تشریح کرتے ہوئے تیسرا مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ لفظ اللہ اس بات کی دلیل ہے کہ ساری حمد اللہ کے لئے ہے۔ نیز اس میں مختلف دلیلیں پیش کی گئی ہیں کہ اللہ کی بہترین حمد، خود اللہ کرتا ہے لہذا اللہ حامد بھی ہے اور محمود بھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی تشریح کرتے ہوئے یہ تیسرا مضمون پیش کیا جارہا ہے جس میں پہلے فقرہ کی وضاحت کی جارہی ہے۔ نہج البلاغہ کے پہلا خطبہ کی ابتدا اللہ کی حمد اور مخلوق کا اللہ کے سامنے عاجز ہونے کے بارے میں ہے۔ پہلے خطبہ کے پہلے فقرہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کا ارشاد یہ ہے: "الحَمْدُ للهِ الَّذَي لاَ يَبْلُغُ مِدْحَتَهُ القَائِلُونَ" ، " ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں"۔ اس مضمون میں اللہ کی حمد، محمود ہونے اور حامد ہونے کے سلسلہ میں گفتگو کی جارہی ہے۔
تشریح:
اللہ سے حمد کے مختص ہونے کے دلائل:
۱۔ لفظ "اللہ": مذکورہ جملہ میں حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) نے "الحَمْدُ للهِ" کے لفظ سے اللہ کی جو حمد کی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ساری حمد اللہ سے مختص ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ "الحمد" کے بعد لفظ "اللہ"ذکر ہوا ہے جو خود اس بات کی دلیل ہے کہ ساری حمد اللہ سے مختص ہے۔ اس دلیل کی وضاحت یہ ہے کہ "اللہ" وہ ذات ہے جس میں سب وجودی کمالات پائے جاتے ہیں اور کیونکہ حمد، کمال کے سامنے ہوتی ہے اور ہر کامل، محمود اور لائقِ حمد ہے تو اللہ محمود اور لائقِ حمد ہے۔ یہ دلیل اس ضابطہ سے ماخوذ ہوتی ہے جو علمی الفاظ میں کہا جاتا ہے: "حکم کو صفت پر موقوف کرنے سے علت اور وجہ کی نشاندہی ہوتی ہے"۔ اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ اگر کہا جاتا: "الحمدله" (حمد اُس کے لئے ہے) تو یہ ایسا دعوی تھا جس کے ساتھ کوئی دلیل موجود نہیں تھی اور یہ دعوی دلیل طلب کرتا اور اس کی دلیل یہ ہوتی کہ اللہ تمام کمالات کے حامل ہونے کی وجہ سے لائقِ حمد ہے، لیکن "الحَمْدُ للهِ" میں حکم (حمد کا ثابت ہونا) صفت (اللہ) پر موقوف ہے کہ موضوع کے اپنے ساتھ دلیل بھی موجود ہے اور ایسے مقامات پر دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسا کہ "الجنة للمطيعين و النار للملحدين" کے جملوں میں اطاعت اور الحاد، علت اور وجہ ہے کہ مطیعین کے لئے جنت ہے اور ملحدین کے لئے جہنم ہے۔
۲۔ لفظ "الحمد": اولاً: "الحمد" میں "الف لام" جنس یا استغراق کی ہے جو ہمہگیری کے معنی میں ہے یعنی ساری حمد اللہ کے لئے ہے، ثانیاً: اللہ تعالی قرآن کریم میں حمید کے اسم سے اپنی تعریف کرتا ہے۔ حمید، محمود کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے اور حامد کے معنی میں بھی۔ لہذا مخلوقات کی ساری حمد اور تعریفیں، اللہ کے لئے ہیں اور نیز حقیقی حامد صرف اللہ ہے اور صرف وہی خود اپنی حمد و تعریف کا حق ادا کرسکتا ہے اور "الحمدللہ" میں دونوں معانی کا امکان ہے (محمودیت اور حامدیت کا اللہ سے مختص ہونا)، لہذا اسے الگ دو حصوں میں بیان کیا جارہا ہے:
الف) محمودیت کے مختص ہونے کے دلائل:
پہلی دلیل: حمد نعمت کی وجہ سے ہوتی ہے اور کیونکہ حقیقی اور بالذات مُنعِم (نعمت دینے والا)، اللہ ہے اور سب نعمتیں (واسطہ کے ذریعے یاواسطہ کے بغیر) اس کی طرف سے ہیں، لہذاحقیقی محمود صرف وہی ہے۔
دوسری دلیل: قرآن کریم کے نقطہ نگاہ سے ساری مخلوقات، اِس لحاظ سے کہ اللہ کی مخلوق ہیں، خوبصورت ہیں، لہذا سب خوبصورتیاں اللہ کی ہیں اور کیونکہ حمد، خوبصورت کام کی تعریف ہے لہذا ساری حمد اللہ کی ہے۔
تیسری دلیل: اگر گہرائی سے تجزیہ و تحلیل کیا جائے تو اللہ کی عام اور ہمہ گیر ربوبیت (ربوبیت مطْلَقَہ) اور توحید افعالی کی بنیاد پر، عمل کی عامل سے نسبت دینے میں، غیراللہ (اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے) کوئی حصہ نہیں بچتا، کیونکہ صرف اللہ تعالی کا فیض ہے جو کائنات کے سارے عوالم کا انتظام کررہا ہے اور جس کام کی کسی مخلوق سے نسبت دی جاتی ہے وہ صرف اللہ کے فیض اور فعل کا ظہور اور تجلی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم، مجاہدین کی محاذ جنگ میں باطل کے سامنے فتح کی، ان مجاہدین سے نفی کرتے ہوئے اسے اللہ سے نسبت دے رہا ہے چاہے انسانی مجاہدین: "فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ[1]"، "(اے مسلمانو) تم نے ان (کفار) کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے قتل کیا"، اور چاہے غیبی آسمانی لشکر "وَأَنزَلَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا"[2]، "اور ایسے لشکر نازل کئے جو تمہیں نظر نہیں آئے"، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں بھی ارشاد الہی ہے: "وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ رَمَىٰ[3]"، "اور (اے رسولؐ) سنگریزے آپ نے نہیں پھینکے جبکہ آپ نے پھینکے بلکہ خدا نے پھینکے"، کیونکہ صرف اللہ کا فیض ہے جو ساری کائنات، منجملہ حق کی باطل سے جنگ کے محاذ کا انتظام کررہا ہے اور اس کی نگرانی کررہا ہے، اسی لیے کافروں کی شکست کے بعد، مجاہدین کی تعریف نہیں کرتا، بلکہ ظالموں کی جڑ کے کٹ جانے کو بیان کرتے ہوئے اللہ، اپنی حمد کررہا ہے: "فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ[4]"، "پھر ظالموں کی جڑ کاٹ دی گئی اور ساری تعریف اللہ کے لئے ہے جو رب العالمین ہے"۔ لہذا کام کا فاعل اور حقیقی مالک، اللہ تعالی ہے، البتہ اللہ کا کام مجاہدین کے ہاتھوں سے ہورہا ہے: "قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ[5]"، "ان سے جنگ کرو اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے سزا دے گا اور رسوا کرے گا"، بنابریں جو شخص اللہ کے دین کے تحفظ اور مدد کی توفیق پاتا ہے اسے دوسرے لوگوں سے بڑھ چڑھ کر، اللہ کا شکر کرنا چاہیے، کیونکہ اس کا ہاتھ خداوندِ فیاض کے فیض کا مظہر قرار پایا ہے۔
ب) حامدیت کے مختص ہونے کے دلائل: اللہ تعالی کی حامدیت دو دلیلوں سے ثابت ہوتی ہے:
پہلی دلیل: حقیقی حمد، نعمت کی حقیقی معرفت اور سب نعمتوں کی کُنہ کی حقیقی پہچان پر موقوف ہے اور یہ دونوں، اللہ تعالی کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہیں، جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: " إنَّ اللّه َ سبحانَهُ قَدِ امتَنَّ على جَماعَةِ هذهِ الاُمَّةِ فيما عَقَدَ بَينَهُم مِن حَبلِ هذهِ الاُلفَةِ الّتي يَنتَقِلونَ في ظِلِّها ، وَ يأوُونَ إلى كَنَفِها، بنِعمَةٍ لا يَعرِفُ أحَدٌ مِن المَخلوقينَ لَها قِيمَةً؛ لأنَّها أرجَحُ مِن كُلِّ ثَمَنٍ ، و أجَلُّ مِن كُلِّ خَطَرٍ[6]"، "خداوند عالم نے اس امت کے لوگوں پر اس نعمت بے بہا کے ذریعہ سے لطف و احسان فرمایا کہ جس کی قدرو قیمت کو مخلوقات میں سے کوئی نہیں پہچانتا کیونکہ وہ ہر (ٹھہرائی ہوئی) قیمت سے گراں تر اور ہر شرف و بلندی سے بالاتر ہے اور وہ یہ کہ ان کے درمیان اُنس و یکجہتی کا رابطہ (اسلام) قائم کیا کہ جس کے سایہ میں وہ منزل کرتے ہیں اور جس کے کنار (عاطفت) میں پناہ لیتے ہیں"۔[7]
دوسری دلیل: توحید افعالی کی بنیاد پر جو کوئی اللہ کی حمد کرے، وہ اللہ کی آیات میں سے ایک آیت اور اس کے مظاہر میں سے ایک مظہر ہے، اسی لیے حمد کرنے والوں کی حمد، اللہ کی حمد کی مظہر ہے، یعنی اولاً اور بالذات اللہ، حامد ہے اور ثانیاً اور بالعرض اس کے مظاہر حامد ہیں، لہذا قرآن مجید کی کئی آیات میں اللہ تعالی نے اپنی حمد کی ہے اور لوگوں کو حمد کرنے کے تعلیمی پہلو کے علاوہ، اللہ اپنی حمد بھی کرتا ہے اور جو جملہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل ہوا ہے: "اللّهُمَّ … لا اُحصي ثَناءً عَلَيكَ ، أنتَ كَما أثنَيتَ عَلى نَفسِكَ[8]"، "بارالہا…میں تیری ثناء نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی ثناء کی ہے"، اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے۔
حقیقی مشکور اور محمود:
مشکور یعنی جس کا شکر کیاجائے اور محمود یعنی جس کی حمد کی جائے۔ قرآن کریم میں بندوں کی سعی و کوشش پر اللہ نے شکر کیا ہے، جیسے: "وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُوراً[9]"، "اور جو کوئی آخرت کا طلبگار ہوتا ہے اور اس کے لئے ایسی کوشش بھی کرے جیسی کہ کرنی چاہیئے حالانکہ وہ مؤمن بھی ہو تو یہ وہ ہیں جن کی کوشش مشکور ہوگی"، اللہ کا شکر اور حمد زبانی نہیں ہے اور اس کے فعل کی صفات میں سے ہے، نہ کہ ذات کی صفات میں سے، کیونکہ اللہ کے فعل کے مقام سے ماخوذ ہوتی ہے۔ اللہ کے شاکر اور حامد ہونے کے بارے میں اس اہم نکتہ پر توجہ رکھنا چاہیے کہ بندوں کی سعی و کوشش پر اللہ کا شاکر اور شکور ہونا اور نیک و صالح بندوں کے مقام پر حمید و حامد ہونا، ابتدائی نظر میں ایسا ہے ورنہ تجزیہ و تحلیل اور حقیقی نظر میں اللہ کے علاوہ کوئی بھی شکر اور حمد میں حصہ دار نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالی اپنے کام کا شاکر اور اپنے کمال کا حامد ہے۔ وہ اپنے کسی فعل کے ذریعے اپنے دوسرے فعل کا شاکر اور حامد ہے، لہذا حقیقی شاکر و مشکور اور حامد و محمود، اس ذات کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ جیسا کہ دعائے جوشن کبیر میں ہے: "يَا خَيْرَ حَامِدٍ وَ مَحْمُودٍ"، اے بہترین حمد کرنے والا اور بہترین حمد ہونے والا"۔
نتیجہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے جو "الحمدللہ" کے لفظوں سے اللہ کی حمد کی ہے، ان دونوں لفظوں کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہوئے واضح ہوتا ہے کہ یہ دونوں لفظ اس بات کی دلیل ہیں کہ حمد صرف اللہ سے مختص ہے، لہذا حقیقی محمود، اللہ ہے۔ پھر دیگر دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ حقیقی حامد بھی اللہ ہے، بنابریں اللہ کا حقیقی حامد اور حقیقی محمود، خود اللہ ہے اور مخلوقات جتنی اللہ کی حمد کررہی ہیں، درحقیقت ان کے ذریعے اللہ اپنی حمد کررہا ہے اور واضح رہے کہ اللہ حمد کا محتاج نہیں بلکہ لائقِ حمد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سورہ انفال، آیت 17۔
[2] سورہ توبہ، آیت 26۔
[3] سورہ انفال، آیت 17۔
[4] سورہ انعام، آیت 45۔
[5] سورہ توبہ، آیت 14۔
[6] نهج البلاغہ، خطبہ 190۔
[7] ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)، ص466۔
[8] نہج الذکر، ج2، ص314۔
[9] سورہ اسراء، آیت 19۔
Add new comment