ساری حمد اللہ کے لئے ہے

Sun, 04/16/2017 - 11:16

خلاصہ: نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کے پہلے فقرہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اللہ کی حمد کرتے ہیں، اس مضمون میں پہلے فقرہ کے الفاظ کی مختصر وضاحت کے بعد حمد کے بارے میں مختلف پہلووں پر گفتگو کی جارہی ہے۔

ساری حمد اللہ کے لئے ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کے بلاغت سے لبریز خطبات، مکتوبات اور حکمتوں کو علامہ سید رضی (علیہ الرحمہ) نے ایک کتاب میں جمع کرتے ہوئے، اس کتاب کا نام نہج البلاغہ رکھا۔ نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کی ابتدا اللہ کی حمد اور مخلوق کا اللہ کے سامنے عاجز ہونے کے بارے میں ہے۔ پہلے خطبہ کے پہلے فقرہ میں آپؑ کا ارشاد یہ ہے: "الحَمْدُ للهِ الَّذَي لاَ يَبْلُغُ مِدْحَتَهُ القَائِلُونَ" ، "ساری حمد اس اللہ کے لئے ہے جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں"۔

تشریح:
اگر اس خطبہ کے پہلے حصہ کو بارہ حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ان میں سے اس پہلے حصہ میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے خود، اللہ کی حمد کرتے ہوئے مدح کرنے والوں کے عجز و ناتوانی کی خبر دی ہے۔
الفاظ کی وضاحت: ارباب لغت اور قرآن و نہج البلاغہ کے مفسرین نے حمد، مدح اور شکر کے معنی کے بارے میں بہت ساری وضاحت اور تشریح بیان کی ہے، جس میں سے مشہور معنی یہ ہیں کہ حمد ہر طرح کی اس تعریف کو کہاجاتا ہے جو اچھے اور اختیاری کام کی وجہ سے کی جائے جبکہ مدح زیادہ وسیع مفہوم کی حامل ہے اور اختیاری اور غیراختیاری اچھے کاموں کو بھی شامل ہوتی ہے، لیکن شکر صرف وہاں ہوتا ہے جہاں کوئی کسی کو کوئی نعمت دے اور وہ اس کے بدلے میں شکریہ ادا کرے۔
الحمدللہ میں "الف لام" جنس یا استغراق کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کی حمد و تعریف اللہ کے لئے ہے۔ جو حمد جس حامد سے جس محمود کے لئے ہو، درحقیقت وہ اللہ کی حمد ہے۔ للہ میں "لام" یا مالکیت کی ہے یا اختصاص کی، یعنی اللہ ہر حمد کا مالک ہے یا یہ کہ ہر حمد اللہ سے مختص ہے۔ مدح اور مدیح یعنی اچھی ثناء، مدحۃ مدح سے ماخوذ یعنی وہ کیفیت جو مدح کے لائق ہے۔
حمد و تعریف، اللہ سے مختص ہے: الحمدللہ کا مطلب یہ ہے کہ "ساری" حمد و تعریف اللہ کے لئے ہے اور ساری حمد و تعریف "صرف" اللہ کے لئے ہے۔ کیونکہ دنیا اور آخرت اور جو کچھ ان میں ہے، سب اللہ کا ہے۔ دنیا اس میدان کی طرح ہے جس میں مالک کائنات اپنے علم، قدرت اور حیات کو منظرعام پر لایا ہے۔ جب آدمی مصور کے ہاتھ کی بنائی ہوئی خوبصورت تصویر کو دیکھتا ہے تو تصویر کی تعریف کرتا ہے، یہ تعریف درحقیقت اس تصویر کی نہیں کی جارہی، بلکہ اس مصور کی کی جارہی ہے جس نے اپنے علم اور فن کو تصویر کی شکل میں دکھایا ہے، اسی طرح ساری کائنات کیونکہ اللہ کی مخلوق ہے تو ہر مخلوق کے پاس جو اختیاری اور غیراختیاری حُسن و جمال اور کمالات ہیں، وہ اللہ کی طرف سے ہیں۔لہذا کسی مخلوق کی جتنی تعریف کی جائے حقیقت میں اللہ کی حمد و تعریف کی جارہی ہے، چاہے تعریف کرنے والا اس بات کی طرف متوجہ ہو یا نہ ہو کہ درحقیقت کس کی تعریف کررہا ہے۔ کیونکہ جس چیز کی تعریف کی جارہی ہے اس کا سوائے اللہ کے کوئی مالک نہیں ہے اور کیونکہ حمد اختیاری کمال کی وجہ سے ہوتی ہے اور سب کمالات صرف اللہ کے ہیں جو اس نے جس کو دیئے ہیں اپنے اختیار سے دیئے ہیں لہذا ساری حمد و تعریف اللہ کے لئے ہے۔
اللہ کی حمد، قرآن کریم کے آئینہ میں:لفظ "الحمدللہ" قرآن کریم میں ۲۳ بار ذکر ہوا ہے، جن میں سے پانچ سورتوں کی ابتدا الحمدللہ سے ہوئی ہے، یعنی سورہ الحمد، انعام، کہف، سبا اور فاطر۔قرآن مجید میں بعض مقامات پر حمد کے ساتھ دیگر الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں جیسے: "له الحمد"، "بحمد ربك"، "بحمد ربهم" و "نسبّح بحمدك"۔

حمد کی قسمیں: تکوینی اور تشریعی حمد۔ تکوینی حمد یہ ہے کہ ساری کائنات بغیر استثناء، اللہ تعالی کی حمد کررہی ہے جیسا کہ ارشاد الہی ہے: "تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا"[1]، "ساتوں آسمان اور زمین اور جو کوئی بھی ان میں موجود ہیں اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے جو حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کرتی ہو۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو بے شک وہ بڑا بردبار، بڑا بخشنے والا ہے"۔
تشریعی حمد یہ ہے کہ اللہ تعالی نے شریعت کی صورت میں حکم دیا ہے اور یقیناً حکم دینے کے ساتھ اختیار کا پایا جانا بھی ضروری ہے، بعض لوگ اللہ کی حمد کرتے ہیں اور بعض حمد کرنے سے بغاوت کرتے ہیں۔ تشریعی حمد کے حکم کی مثال یہ آیت ہے: "وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِهِ وَكَفَىٰ بِهِ بِذُنُوبِ عِبَادِهِ خَبِيراً"[2]، "اور آپ اس خدائے حیّ پر اعتماد کریں جسے موت آنے والی نہیں ہے اور اسی کی حمد کی تسبیح کرتے رہیں کہ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کی اطلاع کے لئے خود ہی کافی ہے"۔
حمد کے ارکان: حمد کے ارکان وہ ہیں جن سے حمد وجود میں آتی ہے کہ جب تک یہ ارکان پہچانے نہ جائیں اور ناقص ہوں، تب تک حمد کی حقیقت وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ وہ ارکان یہ ہیں:
۱۔ حامد: جو حمد کرنے والا ہے۔ ۲۔ محمود: جس کی حمد کی جاتی ہے۔ ۳۔ محمود علیہ: وہ صفات جن کی وجہ سے محمود میں حمد کی لیاقت پائی جاتی ہے۔ ۴۔ محمود بہ: وہ لفظ جو حمد کے معنی میں ہو لہذا ہر لفظ سے حمد وقوع پذیر نہیں ہوتی۔ ۵۔ حامد کے اندرونی مقدمات کا فراہم ہونا۔
حمد کے وقوع پذیر ہونے کے لئے حامد کو چاہیے کہ اپنے آپ کو پہچانے اور محمود کے سامنے اپنے ضعف، نقص اور ضرورت کا ادراک کرے۔ حامد کو چاہیے کہ ہر لحاظ سے محمود کو حمد کے لائق سمجھے، اس کے کمال، جمال، افعال اور ذات کی صفات کو پہچانے، لہذا حامد کو چاہیے کہ محمود اور محمود علیہ کی ایک ساتھ معرفت حاصل کرے یعنی ان صفات کو پہچانے جن کے محمود میں پائے جانے کی وجہ سے محمود لائق حمد ہے اور اس بات کو بھی پہچان لے کہ وہ صفات یقیناً محمود میں پائی جاتی ہیں۔ اور نیز اس بات کا ادراک کرے کہ اس کے اپنے اندر اور دیگر حمد کرنے والوں میں وہ صفات نہیں پائی جاتیں۔
حمد کے مراتب: قلبی، عملی، زبانی۔ مذکورہ بالا ارکان کے پیش نظر، قلبی حمد پہلے ہے، یعنی اللہ کے حقیقی حامد کو چاہیے کہ اللہ کو اس کے تمام فیوضات کے ساتھ پہچانے اور اللہ تعالی کو دین اور دنیا میں اپنا ولی نعمت جانے اور اللہ کی وحدانیت، خالقیت اور قدرت جیسی  صفات کا معتقد ہو، ایسا شخص درحقیقت، اپنے اندر سے اللہ کی حمد کرتا ہے اور اللہ کو اس وجہ سے حمد کے لائق سمجھتا ہے، قلبی حمد، عملی حمد میں ڈھل جاتی ہے جو اعضاء و جوارح کو استعمال کرنے سے ہے اور اپنی ساری زندگی اور مال کو اللہ کی عبادت کے راستے میں استعمال کرتا ہے، اس کی نماز، روزہ اور اطعام اور دیگر نیک اعمال، عملی حمد ہے، وہ اللہ کے احکام اور موازین کی مومنانہ اور مخلصانہ طور پر اطاعت اور فرمانبرداری کرتا ہے۔ زبانی حمد ان عقائد کو زبان پر جاری کرنا ہے۔
نتیجہ: ساری حمد اللہ کے لئے ہے اور اللہ سے ہی مختص ہے، جو شخص کسی چیز یا کسی شخص کی تعریف کرتا ہے درحقیقت اللہ کی تعریف کررہا ہے، کیونکہ جس وجہ سے تعریف کی جارہی ہے وہ اللہ کی عطا ہے جو اس نے اپنے اختیار سے عطا فرمائی ہے، لہذا اللہ تعالی لائق حمد و تعریف ہے۔ حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ کے اس پہلے فقرہ میں اللہ کی حمد کرتے ہوئے، سب بولنے والوں کے عجز کو بیان فرمارہے ہیں کہ اللہ کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] سورہ اسراء، آیت 44۔
[2] سورہ فرقان، آیت 58۔

Tags: 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
12 + 7 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 57