جیسے جیسے اربعین امام حسینؑ کا دن قریب آتا ہے ویسے ویسے ہی جو مومنین کربلا نہیں جا سکے ان کے دل مضطرب ہو جاتے ہیں اور دل مضطرب ہوں بھی کیوں نا کیونکہ امام حسینؑ کے روضہ مبارک کی زیارت معرفت کے ساتھ کرنا ایک بہت بڑی سعادت اور اجر کی بات ہے۔ اور ہر مومن کا یہ دل چاہتا ہے کہ وہ اس خوبصورت مناسبت پر امام کے روضہ مبارک پر لازمی حاضر ہو۔
انسان اپنے حالات یا پھر کچھ معاملات کی وجہ سے زیارت پر جا بھی نہیں سکتا۔ ایسے میں ہمیں اس بات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا آئمہؑ نے ایسے لوگوں کو جو ان کی زیارت پر حاضر نہ ہو سکیں انہیں کوئی راہ دیکھائی ہے ؟ تو آج ہم اپنے اس مختصر سے آرٹیکل میں اسی بات کو تلاش کرنے کی کوشش کریں گے ان شاءاللہ
حضرت امام موسی کاظمؑ فرماتے ہیں:من لم يقدر ان يزورنا فليزر صالحي موالينا يكتب له ثواب زيارتنا، ومن لم يقدر على صلتنا فليصل صالحي موالينا يكتب له ثواب صلتنا "جو شخص ہماری زیارت نہ کر سکتا ہو وہ ہمارے نیک چاہنے والوں کی زیارت کرے اس کے نامہ اعمال میں ہماری زیارت کرنے کا ثواب لکھ دیا جائے گا اور جو شخص ہمارے ساتھ صلہ رحم نہ کر سکتا ہو وہ ہمارے نیک چاہنے والوں کے ساتھ صلہ رحم کرے، اس کے نامہ اعمال میں ہمارے ساتھ صلہ رحم کرنے کا ثواب لکھ دیا جائے گا۔"(کامل الزیارات، شیخ جعفر ابن قولویہ، صفحہ 528، طبع: قم)
حضرت امام صادقؑ فرماتے ہیں: و من لم يقدر على زيارتنا فليزر صالحى موالينا يكتب له ثواب صلتنا و من لم يقدر على زيارتنا فليزر صالحى موالينا يكتب له ثواب زيارتنا "اور جو ہماری زیارت پر قدرت نہیں رکھتا تو ہمارے کسی نیک محب اور موالی کی زیارت کرے تو اسے ہماری زیارت کا ثواب ملے گا۔"(ثواب الاعمال، شیخ صدوق، صفحہ 210، طبع: قم)
بالکل اسی قسم کا ایک اور فرمان حضرت امام علی رضاؑ سے بھی کامل الزیارات صفحہ 528 پر مروی ہے۔
ہم لوگ بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ہمارے آئمہؑ نے ہر صورتحال کے متعلق کوئی نا کوئی راہ ضرور بتائی ہے۔ کیونکہ آئمہؑ جانتے تھے کہ یقینا ہر شخص تو ہمیشہ ہماری زیارت کے لئے نہیں آ سکتا تو ایسے میں آئمہؑ نے ہمیں ایک اور راستہ بتا دیا کہ ہم لوگ مومنین کے ساتھ ملاقات کریں، اچھی محافل کا بندوبست کریں، اچھی مجالس کا اہتمام کریں، ایک دوسرے کے ساتھ اچھی نسشتیں رکھیں۔ کیونکہ ان زیارات اور ان مجالس کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ ہم میں آل محمد کی پیروی کا جذبہ پیدا ہو اور ہم آل محمد کے امر کی حفاظت کر سکیں۔ تا کہ اس سے معصومینؑ کا امر زندہ ہو، لوگوں کے شعور میں اضافہ ہو، معصومین کا راستہ اور ان کا خالص دین زندہ ہو۔ جس وقت یہ سب ہو گا تو معاشرے میں لوگوں کے دل زندہ ہو جائیں گے اور آل رسول کی حقیقی تعلیمات سے معطر ہو جائیں گے جس کی وجہ سے منحرفین اور بدعتیوں کے راستے بند ہو جائینگے۔ نیز اس عمل سے ایک اچھا اور صالح گروہ بھی ترتیب پا جائے گا جو معاشرے میں ایک فعال کردار ادا کرے گا۔ اسی لئے بے غرض ہو کر ایسی محافل کا بندوبست کرنے والوں کو معصومینؑ نے دعائیں دی ہیں۔ اب ہم خود سوچ لیں کہ اگر ہم نے آل محمدؑ کے ان فرامین پر عمل کیا تو ہم لوگ کس درجے خوش نصیب ہونگے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لہذا مومنین سے گزارش ہے کہ زیارت پر نہ جانے کا صرف افسوس کرنے کی بجائے معصومینؑ کی تعلیمات کی جانب رجوع کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ایک بات پر تو صرف افسوس ہی کرتے رہ جائیں اور معصومینؑ کی ہی بتائی ہوئی دوسری اہم بات کو فراموش کر جائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
Add new comment