ماہ رمضان المبارک کے نویں دن کی دعااور دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح

Thu, 05/24/2018 - 12:11

ماہ رمضان المبارک کے نویں دن کی دعا
اَللّهُمَّ اجْعَل لي فيہ نَصيباً مِن رَحمَتِكَ الواسِعَۃ وَاهْدِني فيہ لِبَراهينِكَ السّاطِعَۃ وَخُذْ بِناصِيَتي إلى مَرْضاتِكَ الجامِعَۃ بِمَحَبَّتِكَ يا اَمَلَ المُشتاقينَ ۔
اے معبود! آج کے دن میرے لئے اپنی وسیع رحمت میں سے، ایک حصہ قرار دے، اور اپنے تابندہ برہانوں سے میری راہنمائی فرما، اور جہاں کہیں بھی تیری رضااور خوشنودی ہو،میرا  رُخ اسی جانب موڑ دے، تجھے تیری محبت کا واسطہ، اے مشتاقوں کی آرزو۔

ماہ رمضان المبارک کے نویں دن کی دعااور دعائیہ فقرات کی مختصر تشریح

اہم کلمات: اس دعا میں تین بنیادی باتوں کی جانب اشارہ کیا گیا ہے: (1)پروردگار کی وسیع رحمت(2)خدا کے دلائل و براہین(3)خدا کی رضا میں قدم آگے بڑھانا۔
دعائیہ فقرات:
(1) اَللّهُمَّ اجْعَل لي فيہ نَصيباً مِن رَحمَتِكَ الواسِعَۃ: خدا کی رحمت کے سلسلہ میں گفتگو بہت زیادہ ہے لہٰذا اس سے قطع نظر کرتے ہوئے رحمت کے چند زاویوں کوذکر کرتے ہیں:امام سجاد علیہ السلام سے عرض کیا  گیاکہ حسن بصری کہتا ہے:" اس شخص پر تعجب ہے جو گمراہی کے کثیر اسباب کے باوجود نجات کا راستہ اپنا لیتا ہے؛ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا: میں یوں کہتا ہوں کہ: "لَیْسَ الْعَجَبُ مِمَّنْ نَجَى کَیْفَ نَجَى، وَ اِنَّما الْعَجَبُ مِمَّنْ هَلَکَ کَیْفَ هَلَکَ مَعَ سِعَةِ رَحْمَةِ اللهِ؟!" ”اس شخص پر تعجب نہیں جو نجات کا راستہ اپناتا ہے، بلکہ اس شخص پر تعجب ہے کہ اللہ تعالی کی بے پناہ رحمتوں کے باوجود گمراہی کے راستے کو پکڑ لیتا ہے۔(سفینة البحار، جلد 1، صفحه 517) ۔۔۔ مثبت زاویۂ دید رکھنے والے انسان کو رحمت الٰہی کبھی مایوس نہیں کرتی۔۔۔۔ دونوں اقوال کے زاویۂ دید پر غور فرمائیں اور خود ہی کچھ نکات کشید فرمائیں۔۔۔رحمت وہی عنایت الٰہی ہے جو بندگی اور یاد خدا سے حاصل ہوتی ہے امیر المومنین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:ذکر و یاد خدا کے ساتھ رحمت کا نزول ہوتا ہے؛ببذل الرحمۃ تستنزل الرحمۃ(عیون الحکم والمواعظ ص190)

(2) وَاهْدِني فيہ لِبَراهينِكَ السّاطِعَۃ:برہان کے معنی دلیل اور حجت کے ہیں، ارشاد ربانی ہے: أَمِ اِتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هٰاتُوا بُرْهٰانَكُمْ هٰذٰا ذِكْرُ مَنْ مَعِيَ وَ ذِكْرُ مَنْ قَبْلِي بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاٰ يَعْلَمُونَ اَلْحَقَّ فَهُمْ مُعْرِضُونَ(الأنبياء، 24)کیا لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر اور معبود بنالئے ہیں۔ کہہ دو کہ (اس بات پر) اپنی دلیل پیش کرو۔ یہ (میری اور) میرے ساتھ والوں کی کتاب بھی ہے اور جو مجھ سے پہلے (پیغمبر) ہوئے ہیں۔ ان کی کتابیں بھی ہیں۔ بلکہ (بات یہ ہے کہ) انمیں سے اکثر حق بات کو نہیں جانتے اور اس لئے اس سے منہ پھیر لیتے ہیں ۔
راغب اصفہانی برہان کو قوی ترین دلیل مانتا ہے(المفردات فی غریب القرآن،ص45، مادہ  'برہ')اور برہان ساطع بھی وہی حجت اور روشن دلیل ہےاور چونکہ یہ بذاتہ بہت قوی ہوتی ہے اس لئے اگر طرف مقابل اگر عناد سے کام نہ لے تو سر تسلیم خم کر ہی دیگا اسی لئے تاریخ شاہد ہے کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے سامنے باطل کی ایک نہ چلتی تھی اسی طرح آئمۂ معصومین علیہم السلام خدا کے ایسے زندۂ جاوید چمکتے دلائل و براہین تھےجوطرف مقابل کے عناد کی وجہ سےظلم و ستم کا نشانہ بنے رہے کیونکہ طرف مقابل کے پاس کوئی چارہ ہی نہ تھا۔۔۔امام باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : برہان رسول خدصلی اللہ علیہ و آلہ ہیں(مستدرک سفینۃالبحار، ج1 ص347)اور امیر المؤمنین ارشاد فرماتے ہیں:رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے بڑھکر محکم حجت کوئی نہیں؛ انہ لم یکن للہ سبحانہ حجۃ فی ارضہ اوکد من نبینا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ ؛ اس طرح امیر المؤمنین کے وصف میں زیارت روز غدیر میں ہم پڑھتے ہیں: انت الحجۃ البالغۃ و المحجۃ الواضحہ؛ مولا آپ حجت اور روشن برہان ہیں۔۔۔دلائل و براہین کو قبول نہ کرنے کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں جیسے: دنیا طلبی، ریاست طلبی،خود خواہی،حجاب نفس۔۔۔

(3) وَخُذْ بِناصِيَتي إلى مَرْضاتِكَ الجامِعَۃ: یہاں اس جملہ میں ایک توفیق اجباری مقصود ہے؛لیکن اسکے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں خدا کسی کو اپنی بندگی کے لئے مجبور کرتا ہے، بلکہ دعا کے ذریعہ ہم جو خود درخواست کررہے ہیں کہ ہمیں اپنی مرضی کا مالک نہ بننے دینا کہ بلا سوچے سمجھے جس طرف چاہیں منھ اٹھائے چل پڑیں۔۔۔ کیونکہ ہم تو نادان ہیں ہمیں کیا سمجھ ۔۔ہم تو بس جب چڑیا کھیت چُگ جاتی ہے تو بیٹھے کف افسوس ملنے والے افراد ہیں ہماری سرشت ہماری فطرت لغزشوں والی ہے اس لئے خدایا یہ تیرا لطف رہیگا اگر تو ہمیں بھٹکنے نہ دےپھسلنے نہ دے بہکنے نہ دے۔۔۔۔بچپن میں بزرگوں کی تنبیہ گرچہ بری لگتی ہے لیکن وہی آگے چل کر زہرآلود زندگی کے لئے تریاق کا کام کرتی ہے۔۔۔درحقیقت اس دعا کے ذریعہ ہم خدا سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں اچھائی اور بھلائی کا زمینہ فراہم کردےتاکہ ہمیشہ ایسے کام میں مشغول رہیں  جو ہر طرح سے اسکی خوشنودی کا سبب بنا رہے۔

(4) بِمَحَبَّتِكَ يا اَمَلَ المُشتاقينَ: جس طرح ایک گاڑی کو ایک شہر سے دوسرے شہر تک پہنچنے کے لئے اسکے غذائی مواد  کی فراہمی کی ضرورت پڑتی ہی ویسے ہی شہر گناہ سے اے خدا تیری بارگاہ تک پہنچنے کے لئے مجھے تیری محبت درکارہے ، اے!!!!!

 

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
6 + 6 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 42