مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کا شیرازہ اس وقت بکھرا ہوا ہے، وہ افتراق و انتشار کا شکار ہیں، معاشی طور پر دوسروں کے دست نگر ہیں، سیاسی طور پر محکوم ہیں، عسکری لحاظ سے پرانے اور فرسودہ حربی آلات پر قناعت کئے ہوئے ہیں، مذہبی نقطۂ نظر سے ٹولیوں اور جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، بین الاقوامی سیاست میں ان کا وزن نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، گاجر و مولی کی طرح انہیں کاٹا جا رہا ہے اور خدا کی وسیع سرزمین ان پرتنگ کی جا رہی ہے، ننھے معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھالا جاتا ہے، بہنوں کے سروں سے دوپٹہ کھینچا جاتا ہے، مسلمان آبادی پر وہاں کے نفوس سے بھی زیادہ تعداد میں بم گرائے جاتے ہیں اور مسلمان صرف آہ و بکا اور چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں کرسکتے، اس کی جیتی اور جاگتی مثال یمن، فلسطین اور شام ہے۔
در حالیکہ اگرقرآن اور احادیث کا بغور مطالعہ کیاجائے تو قدم قدم پر مسلمانوں کی اتحاد و یکجہتی کی دعوت دی گئی ہے، اور افتراق و انتشار سے منع کیا گیا ہے وَ أَطِيعُوا اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَ اصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِين (سورہ انفال/۴۶) اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑ جاؤ اور تمھاری ہوا بگڑ جائے اور صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے اتحاد و اتفاق اور اجتماعیت کا مثبت تصور امت مسلمہ کے سامنے پیش کیا اور مسلمانوں کے باہمی اتحاد و اتفاق پر ہمیشہ زور دیا ہے یہی وجہ ہے کہ دوسری قوموں اور مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کے اندر کافی حد تک اتحاد و اتفاق کا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ امت مسلمہ کے اندر اتحاد و اتفاق اوراجتماعیت کے جذبہ کو بڑھانے کیلئے اسلامی عبادات خاص طور پر نماز کیلئے جماعت کی تاکید کی گئی اور جمعہ و عیدین میں مسلمانوں کے اجتماع کا خاص اہتمام کیا گیا تاکہ ملت اسلامیہ کا باہمی اتحاد و اتفاق اور مرکزیت قائم رہے۔اگر تاریخ ادیان کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مسلمانوں کے اتحاد کے لئے بہت سے محور موجود ہیں جیسے وحدانیت خدا، رسالت، کعبہ، قبلہ اور انھیں میں ایک ماہ مبارک رمضان کا مہینہ ہے جن پر تمام مسلمان متحد ہوسکتے ہیں۔
تمام مسلمان، سال کے نویں مہینہ میں روزہ رکھتے ہیں، روزہ کی ابتداء بھی اذان صبح سے ہوتی ہے اور انتہا بھی مغرب کی اذان تک ہوتی ہے، دونوں فرقوں میں اس ماہ مبارک میں قرآن کو پڑھنے کا اور اسے ختم کرنے کا بڑے جوش و خروش کے ساتھ اہتمام کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس مہینہ کی آخری دس راتوں میں عبادت خدا کا ہر مسجد میں ایک خاص اہتمام شب قدر کے عنوان سے کرتے ہیں، دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ شب قدر ماہ مبارک رمضان میں ہے اور اسی مہینہ اور اسی شب (شب قدر) میں قرآن کریم نازل کیا گیا، شب قدر ماہ مبارک کی آخری راتوں میں ہے، اس پر بھی کافی احادیث رکھتے ہیں۔ اب اس سے بڑا اتحاد کا کیا ثبوت ہوگا کہ ابتدا سے انتہا تک اتحاد ہی اتحاد کا سبق مسلمانوں کو مل رہا ہے۔
مگر افسوس کا مقام ہے جس قوم و مذہب میں اتنے اشتراکات ہوں وہ آپس میں اتنی متفرق ہو کہ ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہوں، اگر یہود و نصاری کی تاریخ ادیان اٹھا کردیکھیں تو آپس کے عقائد، اعمال اور مناسبتوں میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا مگر وہ لوگ جان چکے ہیں کہ اختلاف کے بدلے میں خون، بےچارگی، غریبی اور فقیری ہی مل سکتی ہے، ترقی اور کامیابی نہیں لیکن افسوس یہ مسلمان کہ جن کے عقائد، اعمال اور مناسبتوں میں کوئی فرق نہیں ہے، فرق ہے تو جزوی ، مگر جزوی فرق کو کوئی لڑائی جھگڑے کے لئے دلیل بناکر ایک دوسرے کو نابود کرے کہاں کی عقل مندی ہے، عجیب بات تو یہ ہے جس قرآن کو تمام مسلمان مانتے ہیں اسمیں جگہ جگہ پر اتحاد کی دعوت دی جارہی ہے مگر یہ مسلمان ہے جو آپس میں لڑ کر اپنا رعب و دبدبہ ختم کر رہے ہیں۔
Add new comment