خلاصہ: جو لوگ بلند حوصلہ ہوتے ہیں وہی لوگ دنیا میں بلند ہوتے ہیں۔
حسن ایک ذہین لڑکا تھا۔ بدقسمتی سے ایک کارحادثے میں اسکی دونوں آنکھیں جاتی رہیں؛ مگر وہ کبھی اپنی زندگی سے بیزار نہیں ہوا۔ ہردن اسکی کوشش یہی ہوا کرتی تھی کہ کسی پر بوجھ بنے بغیر وہ زندگی کی کشتی کو آگے بڑھاتا رہے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ کسی کا سہارا لئے بغیر بذات خود گاؤں سے شہر اور شہر سے گاؤں جاتا اور چلا آتا تھا۔
اسی گاؤں میں مرتضی نامی ایک شریر لڑکا بھی رہتا تھا۔ ایک دن مرتضی کو دل لگی سوجھی اور اس نے حسن کا مذاق اڑانے کے لئے گاؤں سے شہر جانے کی اس سے بازی لگالی۔
حسن نے مقابلہ قبول کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں مگر میری ایک شرط ہے کہ اگر میں بازی مارلے گیا تو تمہیں اپنی کوٹ میرے حوالے کرنا ہوگی۔
یہ سن کر مرتضی ہنسا اور کہا ٹھیک ہے، اگر جیت گئے تو یہ کوٹ تمہاری۔
حسن نے ایک اور شرط کا اضافہ کیا کہ وقت کا انتخاب بھی میں کروں گا۔
مرتضی تو یہ سمجھ رہا تھا کہ چوں کہ حسن کبھی بھی یہ بازی نہیں جیت سکتا اس لئے اس نے ہاں کردی۔ حسن نے کہا یہ مقابلہ ایک دم اندھیری رات میں ہوگا۔
شہر کا راستہ ایک گھنے جنگل سے ہوکر کر گزرتا تھا، حسن کے لئے چوںکہ رات دن برابر تھے تو وہ اپنے معمول کے مطابق شہر پہنچ گیا، جبکہ مرتضی جنگل میں الجھ کر رہ گیا، گڈھوں میں گرگر کر اس نے اپنا برا حال کرلیا، اور درخت کی شاخوں نے اس کے چہرے کا نقشہ بگاڑ کر رکھ دیا، جب وہ شہر پہنچا تو دیکھا کہ حسن اس سے آدھے گھنٹے پہلے ہی شہر میں پہنچ چکا ہے۔
پیارے نوجوانو! کاش بے چارے مرتضی کو رسول اسلامؐ کی یہ حدیث قدسی یاد ہوتی تو وہ اپنے آپ کو اتنی مشکلوں سے ہمکنار نہ کرتا: إنّ اللَّه أوحى إليّ أن تواضعوا حتّى لا يفخر أحد على أحد (نہج الفصاحہ ص۲۹۰)اللہ نے میری طرف وحی کی کہ (لوگو!)عجز و انکسار کو اپنا شیوہ بناؤ اور کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ کسی پر فخر اور بڑائی جتائے۔
منبع و ماخذ
(هج الفصاحة ،ابو القاسم،ناشر: دنياى دانش،تهران،1382 ش،چاپ چهارم
Add new comment