خلاصہ: تکبر ایک ایسا گناہ ہے جس کی وجہ سے شیطان انسان پر غلبہ حاصل کرلیتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ایک دن جناب موسی علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے کہ ابلیس ان کے پاس آیا اور اپنے سر سے ٹوپی اتار کر ان کے سامنے کھڑا ہوگیا اور سلام کیا، حضرت موسی نے پوچھا:’’تو کون ہے؟‘‘اس نے جواب دیا میں ابلیس ہوں۔ حضرت موسی نے فرمایا:’’خدا تجھے کسی کا ہمسایہ قرار نہ دے‘‘۔
ابلیس نے کہا :’’ اللہ کے نزدیک آپ کا بڑا مقام ہے اس لئے میں آپ کو سلام کرنے کے لئے حاضر ہواہوں‘‘۔
حضرت موسی نے فرمایا:’’اچھا یہ تو بتا کہ وہ کونسا گناہ ہے جس کی وجہ سے تو لوگوں پر غالب آجاتا ہے اور لوگ تیرے قابو میں آجاتے ہیں؟‘‘ ابلیس نے کہا: ’’جب کوئی شخص اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتا ہے اور اسکے ذہن میں انا پرستی اور تکبر پیدا ہوتا ہے تو وہ فورا میرے قبضہ اختیار میں آجاتا ہے، وہی لوگ میرا شکار ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو بڑا تصور کرنے لگتے ہیں اور اپنے سے چھوٹے سے کام کو بڑا کارنامہ سمجھتے ہیں اور اپنے گناہوں کو ہلکا محسوس کرتے ہیں، ایسے لوگ بڑی آسانی سے میرے جال میں پھنس جاتے ہیں۔‘‘
اس داستان کے آخر میں پیغمبر اسلام نے فرمایا: ’’اللہ نے حضرت داود کو وحی فرمائی’’ يَا دَاوُدُ، بَشِّرِ الْمُذْنِبِينَ، وَ أَنْذِرِ الصِّدِّيقِين‘‘ (کافی،ج۳، ص765)اے داود گناہ گاروں کو میری رحمت کی بشارت دو اور نیک لوگوں کو میرے عذاب سے ڈراو‘‘۔
حضرت داود نےپوچھا ’’خدایا گناہ گاروں کو میں کیسے بشارت دوں اور نیک لوگوں کو کیسے ڈراوں؟‘‘ تو خدا نے فرمایا: ’’ يَا دَاوُدُ، بَشِّرِ الْمُذْنِبِينَ أَنِّي أَقْبَلُ التَّوْبَةَ، وَ أَعْفُو عَنِ الذَّنْبِ، وَ أَنْذِرِ الصِّدِّيقِينَ أَلَّا يُعْجَبُوا بِأَعْمَالِهِم‘‘ داود گناہ گاروں کوبشارت دو کہ میں توبہ قبول کرتا ہوں، گناہ معاف کرتا ہوں اور نیک لوگوں کو ڈراو کہ وہ اپنے اعمال پر ناز نہ کریں کیونکہ میں نے جسے بھی مقام حساب میں کھڑا کیا وہ ہلاک ہوگیا۔
منبع و ماخذ
(کافی، محمد بن یعقوب کلینی، انتشارات دار الحدیث، قم، ۱۴۲۹ھ۔ق، چاپ اول۔)
Add new comment