عفو و درگذر ، مشکل کشائی، عذر قبول کرنا

Thu, 01/11/2018 - 16:24

ہمارے اور دوسروں کے درمیان رابطہ کی لکیر ہونی چاہئے ، فاصلہ کی نہیں۔ جو چیز اس رابطہ کو وجود میں لاتی ہے اور رابطہ برقرار ہونے کے بعد اسے مضبوط ومستحکم بناتی ہے وہ ہے دوسروں کے حقوق کو ماننا اور ان کے حقوق کی رعایت کرنا۔

عفو و درگذر

عفو و درگذر: عفو و درگذر ایک ایسا پانی ہے جو غضب، کینہ اور انتقام کی آگ کو بجھا دیتا ہے اور انسان کو روحی سکون ، اطمینان اور زندگی سے لذت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔’’ عفو و درگذر میں ایک ایسی لذت ہے جو انتقام میں نہیں ۔‘‘
اگر آپ دیکھیں کہ آپ کے ساتھ ظلم اور زیادتی ہو ئی ہے، آپ کی ناقدری اور اہانت ہوئی ہے یا آپ کے ساتھ بد زبانی ہو ئی ہے تو آپ اسے معاف کردیں اور اسی کی طرح جواب نہ دیں گے تو آپ نے اپنی کرامت و بزرگواری کوثابت کیا ہے اور ثواب الٰہی کے بھی مستحق ہوئے ہیں ۔ قرآن کریم میں آیا ہے : فَمَنْْ عَفَا وَٲَصْْلَحَ فَٲَجْْرُہُ عَلَی اﷲِ .[سورۂ شوریٰ،آیت۰۴]
جو شخص عفو و درگذر کرے اور اصلاح کرے اس کا ثواب و اجر خدا پر ہے۔ بے شک عفو و درگذر اس شخص کی جانب سے زیادہ پسندیدہ اور قابل ستائش ہے جو انتقام لینے کی قدرت رکھتے ہوئے معاف کردے ۔
مشکل کشائی: مصائب و مشکلات میں گرفتار لوگوں کو دیکھنا انسان کو خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو یاد دلاتا ہے اور ان نعمتوں کے شکرانہ میں بہتر تو یہی ہے کہ ہر شخص اپنی قدرت و قوت بھر دوسروں کی مشکل کشائی کرے ، ان کی مدد کرے اور ان کے چہروں سے رنج و غم کے گرد و غبار ہٹائے۔ 
خاص طور جس بات کی تاکید کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کسی کے مانگنے اور حاجت و نیاز کو بیان کرنے سے پہلے ہی برادر مومن کی مشکل حل کرنے اور مشکل کشائی کے لئے اقدام کرنا چاہئے ۔
حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: جب کوئی مجھ سے لو لگائے اور میں درخواست سے پہلے اسے کچھ نہ دوں تو درحقیقت جو کچھ میں نے اسے دیا ہے اس کی قیمت میں پہلے ہی اس سے لے چکا ہو ں اس لئے کہ اس نے اپنی عزت و آبرو کو بیچ دینا ہے۔ [الکافی]
عذر قبول کرنا: لغزش اور خطا کی بنا پر دوسروں سے معذرت چاہنا اور دوسروں کی معذرت خواہی کو قبول کرنا مکارم اخلاق اور کمال کی نشانی ہے۔
اگر ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ سامنے والا جو عذر بیان کررہا ہے وہ غلط ہے تب بھی تاکید کی گئی ہے کہ ہم اس کی معذرت قبول کریں۔ اسلئے کہ یہ برتاؤ ، عزت و آبرو کا محافظ ہے اور مزید پردہ دری اور بے آبروی سے روکتا ہے اور آپسی میل محبت اور دوستی کا سبب بنتا ہے۔حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: اقبل اعذار الناس تستمتع باخائھم۔لوگوں کے عذر کو قبول کرو تاکہ ان کی بھائی چارگی سے فائدہ اٹھا سکو۔[شرح غرر الحکم]
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے ایک دن اپنے فرزندوں کو جمع کیا اور فرمایا: میرے بیٹو! میں تمہیں ایک ایسی نصیحت کرتا ہوں کہ جو بھی اس پر عمل کرے گا وہ گھاٹے میں نہیں رہے گا؛ اگر کوئی شخص تمہارے پاس آئے اور داہنے کان میں ناپسند باتیں کہے اس کے بعد دوسری طرف جاکر بائیں کان میں تم سے معذرت چاہے کہ میں نے کچھ نہیں کہا تو اس کے عذر کو بھی قبول کرلو۔ [کشف الغمہ]
۱۔الکافی،ج۴،ص۲۲ /۲۔شرح غرر الحکم،ج۲،ص۵۱۲/ ۳۔کشف الغمہ،ص۸۱۲

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 67