خلاصہ: عربی قواعد کے مطابق حروف جارہ کو متعلَّق کی ضرورت ہوتی ہے پھر اس حرف کا مطلب اس متعلَّق سے واضح ہوتا ہے، حروف جارہ میں سے ایک، حرف "ب" ہے۔ اس مضمون میں اس سلسلہ میں گفتگو کی جارہی ہے تا کہ بسم اللہ میں حرف "ب" کے متعلّق کو پہچاننے سے بسم اللہ کا مطلب مزید واضح ہوجائے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
لفظ "باء" حرف جرّ ہے اور بسم (جارومجرور) کلمہ (لفظ) ہے، لیکن مکمل کلام نہیں ہے اسی لیے بسم کا مطلب تب تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس سے پہلے کسی لفظ کا فرض نہ کیا جائے۔ بعض اوقات اس سے پہلے کوئی لفظ موجود ہوتا ہے تو اسی کے ساتھ مل کر اس کا مطلب مکمل ہوجاتا ہے جیسے: "اقرء باسم ربك الذى خلق"، باسم سے پہلے اقرء کا لفظ آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پڑھو اپنے پروردگار کے نام سے ...، ایسے جملات میں تو معنی واضح ہے۔
بعض اوقات مقررہ کام اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے تو بسم اللہ کا متعلَّق بھی واضح ہوجاتا ہے، جیسا کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھنا چاہے یا بیٹھنا چاہے یا مثلاً حیوان کو ذبح کرنے کے وقت کہے بسم اللہ...، یعنی اللہ کے نام سے قربانی کرتا ہوں۔
لیکن جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے کہا جائے: بسم اللہ الرحمن الرحیم تو بسم سے پہلے کوئی ایسا لفظ ذکر نہیں کیا جاتا جس سے معنی مکمل ہوجائے، لہذا اس سلسلہ میں علماء اور مفسرین کی مختلف بحثیں ہیں کہ کس لفظ کا فرض کیا جائے اور اس لفظ سے بسم کو ملا کر بسم کا معنی کیا جائے۔ اُس لفظ کو مُتَعَلَّق کہا جاتا ہے۔ بسم کے متعلَّق کے بارے میں تین نظریات پائے جاتے ہیں۔ اس سلسلہ میں الگ مضمون میں گفتگو کی جائے گی۔
یہاں پر ایک بات غورطلب ہے کہ اگر بسم اللہ میں لفظ اسم نہ بھی ہوتا یعنی باللہ کہا جاتا تو پھر بھی یہ بحث پیش آتی، کیونکہ اصل میں "ب" کو متعلَّق کی ضرورت ہے کیونکہ یہ حرف جرّ ہے اور "ب" کے بعد والے لفظ یعنی مجرور کے لحاظ سے یہاں پر کوئی فرق نہیں ہے۔
Add new comment