یوں تو اسلام میں ہر کسی کے ساتھ اخلاق سے پیش آنے کا حکم ملتا ہے مگر ماں باپ کے ساتھ یہ حکم خصوصیت کے ساتھ ملتا ہے۔
ائمہ علیھم السلام کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ امت میں اخلاقی نظم و ضبط زندہ و تابندہ رہے تاکہ اسلامی معاشرہ سالم رہ سکے اور لوگ پریشانی اور بے چینی کے تاریک گڑھوں میں گرنے سے محفوظ رہیں اسی لئے آپ زور دیتے تھے کہ اولاد والدین کے ساتھ اپنے معاملات میں اخلاقی پہلو کے اعتبار سے اس طرح متمسک رہے کہ یہ اسکی فطرت ثانیہ بن جائے، چنانچہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:’’ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ مِنْ أَكْرَمِ الطِّبَاع ‘‘(بحار الأنوار ، ج74، ص: 212)والدین سے حسن سلوک شریف ترین طبیعتوں کا شیوا ہے۔
دوسرے مقام پر امام علی نقی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’ الْعُقُوقُ ثُكْلُ مَنْ لَمْ يَثْكَل ‘‘(بحار الأنوار ، ج71، ص: 84) والدین کی نافرمانی ایک ایسا بوجھ ہے جسے انسان اٹھانے سے قاصرہے۔
لہذا ہم تمام لوگوں کا ناصرف شرعی بلکہ اخلاقی فریضہ بھی ہے کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تاکہ ان کے مسلم حقوق کی حد اقل ادائیگی ہوسکے اور ناصرف خدا اورمحمد و آل محمد کے نزدیک ماجور ہوسکے بلکہ معاشرہ میں بھی قابل احترام بن سکے۔منبع و ماخذ:
(بحار الانوار، مجلسى، محمد باقر بن محمد تقى،دار إحياء التراث العربي،بيروت، 1403 ق، چاپ دوم)۔
Add new comment