مرحوم علامه طہرانی اپنی کتاب "روح مجرد" میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: طہران میں جس خطیب کو محرم کے عشرے کے لئے بلایا چاتا عشرے کی آخری رات اس سے آئندہ سال کے اسی عشرے کے لئے پھر سے آنے کا وعدہ لے لیا جاتا تھا۔ اور اس سال مرحوم درّی خطیب تھے۔
مرحوم دُرّی کی حیات کا آخری سال تھا اور وہ طہران میں خطابت کا فریضہ انجام دے رہے تھے۔ آٹھویں یا نویں رات کو ایک نوجوان نے مجلس سے پہلے ان سے پوچھا: اس شعر سے مراد کیا ہے:
مرید پیر مغانم ز من مرنج ای شیخ چرا كه وعده تو كردی و او به جاآورد
میں پیر مغان کا مرید ہوں مجھ سے رنجیدہ خاطر مت ہونا اے شیخ کیونکہ وعدہ تونے کیا اور وہ بجا لایا
مرحوم دُرّی نے کہا: اس سوال کہ جواب میں منبر سے دوں گا تا کہ دوسرے بھی فیضیاب ہوسکیں۔انہوں نے منبر پر خدا کی طرف سے آدم ابوالبشر علیہ السلام کو گندم کھانے سے روکے جانے کی داستان نقل کرتے ہوئے کہا کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنی زندگی میں کبھی گندم کی روٹی تناول نہیں فرمائی اور جو کی روٹی بھی کبھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی اور پھر کہا:اس شعر میں شیخ سے مراد "حضرت آدم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام ہیں جنہوں نے جنت میں گندم سے استفادہ نہ کرنے کا وعدہ دیا لیکن اس پر عمل نہ کرسکے اور گندم کھا لی اور یہاں "پیر مغان" سے مراد امیرالمؤمنین صلوات اللہ علیہ ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی گندم کی روٹی نہیں کھائی اور آدم (ع) کا وعدہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے نبھایا۔ یہ اس شعر کی پوری تشریح تھی جو مرحوم دری نے پیش کرکے مجلس ختم کردی۔ سال ختم ہونے سے پہلے ہی مرحوم دری دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور محرم میں اسی رات جس رات اس نوجوان نے مرحوم دری سے مذکورہ بالا سوال پوچھا تھا وہ نوجوان مرحوم دری کو خواب میں دیکھتا ہے اور مرحوم دری کہتے ہیں: تم نے مجھ سے گذشتہ سال اس شعر کا مطلب اور مفہوم پوچھا تھا اور میں نے اس طرح جواب دیا تھا لیکن اب مجھ پر اس شعر کا صحیح مفہوم منکشف ہوا اور وہ یہ ہے کہ:
شعر میں شیخ سے مراد حضرت ابراہیم علیہ و علی نبینا و آلہ الصلواة والسلام ہیں اور وعدہ "بیٹے کی قربانی" ہے اور "پیر مغان" سے مراد حضرت سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام ہیں اور اگرچہ ابراہیم علیہ السلام نے وعدہ وفا کیا لیکن وعدے کی تکمیل سیدالشہداء علیہ السلام نے کی اور کربلا میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کی قربانی دی۔[روح مجرد ص ۱۸]
ماخذ:(حافظ و پیرمغان، ص ،۱۸ به نقل از روح مجرد، علامه طهرانی).
Add new comment