امام حسن مجتبیٰ عليه السلام انسانی فضائل کا عالی ترین نمونہ تھے، آپ صالحین اور پاک سرشت افراد کے مقتدا تھے۔
بعض افراد کچھ یوں فکر کرنے لگ جاتے ہیں کہ امام حسن عليه السلام کی شجاعت دیگر ائمه کے بالمقابل کم تھی، اس غلط فکر کی حقیقت روشن کرنے کے لئے ہم یہاں بطور نمونہ آپ کی شجاعت و جوانمردی کے کچھ تذکرے تحریر کرتے ہیں۔:
جنگ جمل میں امام مجتبي عليه السلام اپنے والد اميرالمؤمنين عليه السلام کے ہمرکاب میدان جنگ میں سپاہیوں کے خط ِّمقد م میں مصروف جہاد تھے اور اميرالمؤمنين عليه السلام کے شجاع دلاورں پر سبقت حاصل کئے ہوئے تھے اور دشمن کے قلب لشکر پر کاری ضرب لگا رہے تھے۔ جنگ شروع ہونے سے پہلے اپنے والد کے حکم کے مطابق عمار ياسر اور کچھ دوسرے جانثاروں کے ساتھ كوفه گئے اور لوگوں کواس جہاد میں شرکت کی دعوت دی۔ جب آپ ؑ کوفے پہنچے تو «ابوموسي اشعري » حكومت عثمان کا ایک مُهره کوفہ پر اپنا تسلط جمائے تھا، اور اميرالمؤمنین عليه السلام کی عادلانہ حکومت کی مخالفت پر کمر بستہ تھا اور مسلمانوں کو جنگ کی حمایت اور اسمیں شریک ہونے سے روکنے میں مصروف تھا، ایسے مشکل حالات میں بھی حسن بن علي عليهماالسلام نے ہزار سے بھی زیادہ افراد کو شہر کوفہ سے میدان جنگ کی طرف بھیجنے میں کامیاب رہے۔ (مناقب آل ابي طالب، ج 4، ص 21)
جنگ صفين میں آپؑ ، سپاہیوں کو اميرالمؤمنین عليه السلام کی فوج میں معاويه سے جنگ کرنے کے لئے تیار کرنے میں مصروف تھے ، اور اپنے خطبوں سے فوج کو آمادہ کرنے میں بہترین رول ادا کر رہے تھے، اور كوفه کے لوگوں کو علي عليه السلام کے رکاب میں جہاد اور اسلام دشمن طاقتوں اور اسلام سے خیانت کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کر رہے تھے۔ راہ حق میں آپ جان کی بازی لگائے ہوئے تھے جسکی وجہ سے اميرالمؤمنین نے جنگ صفين میں اپنے جانثاروں سے فرمایا کہ انہیں اور انکے بھائی حسين عليه السلام کو جنگ سے دور رکھیں تاکہ نسل پيغمبر صلي الله عليه و آله باقی رہے اور انکے شہید ہوجانے کی وجہ سے نسل پیغمبر صلیٰ اللہ علیہ وآلہ کا خاتمہ نہ ہوجائے۔(تاريخ يعقوبي، ج 2، ص 170)
منابع و مآخذ
ابن شهرآشوب، مناقب آل ابي طالب، ( قم، مؤسسه انتشارات علامه)، ج 4، ص 21.
ابن واضح، تاريخ يعقوبي، (نجف، منشورات المكتبة الحيدريه، 1384 ه . ق)، ج 2، ص 170.
بشکریہ:http://razavi.aqr.ir/ur
Add new comment