صلح امام حسن علیہ السلام کا تاریخی جائزہ

Sun, 04/16/2017 - 11:11

چکیده: صلح امام حسن علیہ السلام، حالات اور موقعیت کے مطابق بہترین معاہدہ ہے کہ جسکے مطالعے سے، مشکل حالات میں راہ نجات حاصل کرنے بہترین سلیقہ سیکھنے کو ملتا ہے۔

صلح امام حسن علیہ السلام کا تاریخی جائزہ

دنیا کے بزرگ حکمراں جس وقت حالات اور شرایط کو اپنے اہداف اور نظریات کے خلاف دیکھتے ہیں تو ہمیشہ اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر وہ دو راہے پر کھڑے ہوجائیں تو اس راستہ کا انتخاب کریں جس میں نقصان کم ہو ، سیاسی اور اجتماعی محاسبات میں یہ ایک بنیادی اصل و قانون ہے ۔ امام مجتبی (علیہ السلام) بھی اسی معقول راستہ کی بنیاد پر کوشش کرتے تھے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے بلند و بالا اہداف  اور مقاصدکو پورا کرسکیں۔

حاکم شام کو حضرت امام حسن علیہ السّلام کی فوج کی حالت اور لوگوں کی بے وفائی کا علم ہوچکا تھا اس لیے وہ سمجھتا تھا کہ امام حسن علیہ السّلام کے لئے جنگ کرنا ممکن نہیں ہے مگر اس کے ساتھ ہی اسے اس پر یقین بھی تھا کہ حضرت امام حسن علیہ السّلام کتنے ہی بے بس اور بے کس ہوں مگر وہ علی علیہ السّلام وفاطمہ (س)  کے بیٹے اور پیغمبرؐ کے نواسے ہیں اس لیے وہ ان شرائط پر ہر گز صلح نہ کریں گے جو حق پرستی کے خلاف ہوں اور جن کے ذریعہ باطل کی حمایت ہوتی ہو . اس کو نظر میں رکھتے ہوئے معاویہ نے ایک طرف تو آپ کے ساتھیوں کو عبدالله ابن عامر کے ذریعے سے یہ پیغام دلوایا کہ اپنی جان کے پیچھے نہ پڑو اور خونریزی نہ ہونے دو . اس سلسلے میں کچھ لوگوں کو رشوتیں بھی دی گئیں اور کچھ بزدلوں کو اپنی تعداد کی زیادتی سے خوف زدہ بھی کیا گیا اور دوسری طرف امام حسن علیہ السّلام کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ جن شرائط پر کہیں ان شرائط پر میں صلح کے لیے تیار ہوں۔

امام حسن علیہ السّلام یقیناً اپنے ساتھیوں کی غداری کو دیکھتے ہوئے جنگ کرنا مناسب نہ سمجھتے تھے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ یہ ضرور پیش نظر تھا کہ ایسی صورتِ پیدا ہوکہ باطل کی تقویت کا دھبہ میرے دامن پر نہ آنے پائے . اس گھرانے کو حکومت و اقتدار کی ہوس تو کبھی تھی ہی نہیں . انھیں تو مطلب اس سے تھا کہ مخلوقِ خدا کی بہتری ہو اور حدود و حقوق الٰہی کا اجرا ہو اب معاویہ نے جو آپ سے منہ مانگے شرائط پر صلح کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی تو اب  صلح و مصالحت سے انکار کرنا ذاتی  اقتدار کی خواہش کے علاوہ اور کچھ اور نہ کہلاتا۔

معاویہ  کے پیغام کے بعد امام حسن علیہ السلام نے لوگوں کو  جمع کیا اور انکے سامنے تقریر کی: آگاہ رہو کہ تم میں دو خونریز جنگیں ہوچکی ہیں جن میں بہت لوگ قتل ہوئے کچھ جنگ صفین میں قتل ہوئے جن کے لیے آج تک رو رہے ہو  اور کچھ نہروان کے مقتول  ہیں  کہ جن کا معاوضہ طلب کر رہے ہو اب اگر تم موت پر راضی ہو تو ہم اس پیغام صلح کو قبول نہ کریں اور ان سے الله کے بھروسے پر تلواروں سے فیصلہ کریں  اور اگر زندگی اور حیات کو دوست رکھتے ہو تو ہم اس کو قبول کرلیں اور تمھاری مرضی پر عمل کریں۔جواب میں لوگوں نے ہر طرف سے آواز دینا  شروع کیا کہ ہم زندگی چاہتے ہیں , آپ صلح کرلیجئے ۔ اس کا نتیجہ تھا کہ آپ نے صلح کے شرائط مرتب کرکے معاویہ کے پاس روانہ کئے[1]۔

صلح نامہ کے شرائط

اس صلح نامہ کے سلسلہ سے بہت سے شرایط مؤرخوں نے بیان کئے ہیں مگر جو مشہور و معروف ہیں وہ حسب ذیل ہیں:

معاویہ حکومتِ اسلام میں کتاب خدا اور سنتِ رسول پر عمل کرے۔
معاویہ کو اپنے بعد کسی کو بطور خلیفہ نامزد کرنے کا حق نہ ہوگا.
شام وعراق و حجاز و یمن بلکہ باقی جگہوں  کے لوگوں کے لیے امن و امان ہو۔
حضرت علی علیہ السّلام کے اصحاب اور شیعہ جہاں بھی ہیں ان کی جان ومال اور ناموس و اولاد محفوظ رہیں ۔
معاویہ حسن ابن علی علیہما السّلام اور ان کے بھائی حسین ابنُ علی علیہما السّلام اور خاندانِ رسولؐ میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان پہنچانے یاہلاک کرنے کی کوشش نہیں کریگا، نہ ہی خفیہ طریقہ پر اور نہ ہی  اعلانیہ طور پر اور ان میں سے کسی کو کسی جگہ دھمکایا اور ڈرایا نہیں جائے گا .
جناب امیر علیہ السّلام کی شان میں جو نازیبا کلمات  ابھی  تک مسجدوں اور قنوتوں میں استعمال ہوتے رہے ہیں وہ ترک کردیئے جائیں . اس آخری شرط کی منظوری میں معاویہ کو عذر ہوا تو یہ طے پایا کہ کم از کم جس موقع پر امام حسن علیہ السّلام موجود ہوں اور اس موقع پر ایسانہ کیا جائے [2]۔

یہ معاہدہ مسکن نامی مقام پر  انجام پایا۔ اس صلح کے  وقت  اور زمانہ  وقوع کے سلسلے میں تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن جو وقت اور زمانہ تاریخ میں درج کیا گیا ہے وہ  سن ۴۱  ھ کے ربیع الاول، ربیع الثانی اور جمادی الاول کا مہینہ ہے[3]۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ جات:
[1] ۔ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۴۰۶.
[2] ۔ شهیدی، تاریخ تحلیلی اسلام، ص۱۶۱، به نقل از: طبری، تاریخ الرسل و الملوک، حوادث سال ۴۰ و ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۳، ص۴۰۵ و فیاض، تاریخ اسلام.
[3] ۔ قرشی ،باقرشریف ، حیاة الحسن، ص۴۷۱.

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
2 + 0 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 32