خلاصہ: شراب ہر نبی کی شریعت میں حرام تھی اور اگر اب بعض آسمانی ادیان میں جائز نظر آرہی ہے تو یہ اس دین کی تحریف پر واضح دلیل ہے، لہذا یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے حرام اور منع کیوں کی ہے۔ حقیقت میں تو اللہ تعالی نے سب سابقہ ادیان اور اسلام میں شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ اس بات کو دیکھتے ہیں حضرت امام رضا (علیہ السلام) کی حدیث کی روشنی میں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شراب انسان کی پرانی بے رحم دشمن ہے جو انسان کی عقل کو زائل کردیتی ہے اور کون عقلمند شخص ہے جو اپنے ہاتھوں سے اپنی عقل کو ذبح کردے۔ یہی عقل ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان فرق ڈالتی ہے اور اگر عقل زائل ہوجائے تو انسان اور حیوان ایک دوسرے سے برابر ہوجائیں گے۔ شراب کو صرف اسلام نے ہی حرام قرار نہیں دیا، بلکہ سابقہ ادیان اور انبیاء (علیہم السلام) کی شریعتوں میں بھی حرام تھی۔ حضرت علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "مَا بَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ نَبِيّاً إِلَّا بِتَحْرِيمِ الْخَمْرِ" (عیون اخبار الرضا علیہ السلام، ج۲، ص۱۵)، "اللہ عزوجل نے کوئی نبی مبعوث نہیں کیا مگر شراب کو حرام کرنے کے ساتھ"۔ تاریخ اور حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ شرابخواری یہودیت، مسیحیت اوراسلام میں حرام اور منع تھی اور مسیحیت میں اس کے حرام ہونے کا حکم جو بدل دیا گیا ہے یہ دین میں تحریف کی گئی ہے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ مسیحیت میں شراب جائز کیوں ہے اور اسلام میں منع کیوں ہے! بلکہ تحریف شدہ دین کو صحیح اور خالص دین سے موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا کوئی شخص دین اسلام پر اعتراض نہیں کرسکتا کہ اسلام میں شراب حرام کیوں ہے! جواب واضح ہے کہ سب الہی ادیان اور شریعتوں میں شراب حرام تھی، اگر کسی دین میں جائز نظر آرہی ہے تو یہ اس دین کی تحریف پر دلیل ہے اور اسلام کسی قسم کے نشانۂ تنقید بننے سے پاک و منزہ اور بالاتر ہے۔
۔۔۔۔۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام، شیخ صدوق، نشر جہان، تہران، ۱۳۷۸ ش)
Add new comment