ماہ رمضان میں زبان، کان اور آنکھ کی حفاظت - خطبہ شعبانیہ کی تشریح

Thu, 06/22/2017 - 15:24
ماہ رمضان میں زبان، کان اور آنکھ کی حفاظت - خطبہ شعبانیہ کی تشریح

بسم اللہ الرحمن الرحیم

خطبہ شعبانیہ ماہ رمضان المبارک کی شان و عظمت کے سلسلہ میں ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ماہ رمضان سے پہلے، ماہ شعبان کے آخری جمعہ کو ارشاد فرمایا۔ اس خطبہ کو حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اپنے آباء و اجداد سے نقل کرتے ہوئے حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے۔ ان سلسلہ مضامین میں اس خطبہ کے فقروں کی تشریح بیان کی جارہی ہے، جن میں سے یہ نواں مضمون ہے۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ "وَاحفَظوا ألسِنَتَكُم، وغُضّوا عَمّا لا يَحِلُّ النَّظَرُ إلَيهِ أبصارَكُم، وعَمّا لا يَحِلُّ الاِستِماعُ إلَيهِ أسماعَكُم"[1]، "اور اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو، اور اپنی نگاہیں نیچی رکھو اس چیز سے جسے دیکھنا جائز نہیں ہے،   اور اپنے کانوں کو (نیچی رکھو) اس چیز سے جسے سننا جائز نہیں ہے۔

تشریح

مقدمہ: اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو جو حکم دیا ہے، اس کے ساتھ اس پر عمل اور فرمانبرداری کرنے یا نافرمانی کرنے کا اختیار بھی دیا ہے اور وہ حکم، جسم کے جس حصہ سے متعلق ہو، انسان اس حصہ کو استعمال کرنے میں اختیار رکھتا ہے، اسی اختیار کی نعمت سے انسان اچھا فائدہ اٹھا کر، اللہ کی فرمانبرداری کرتا ہوا ثواب بھی حاصل کرسکتا ہے اور نافرمانی کرکے عذاب کا مستحق بھی بن سکتا ہے، مگر کمال یہ ہے کہ انسان اپنی نفسا نی خواہش پر قابو پالے اور  اپنے پروردگار کے حکم کے سامنے تسلیم ہو کر اس حکم کو بجالائے۔جسم کے منجملہ اختیاری حصوں میں سے زبان، آنکھ اور کان ہیں۔انسان جب چاہے ان پر قابو پاکر ان کی روک تھام کرسکتا ہے، مگر روک تھام کرنے کے لئے اللہ پر ایمان اور پختہ ارادہ کی ضرورت ہے۔

زبان کی حفاظت کرنا اور اسے قابو میں رکھنا: زبان لوگوں کا ایک دوسرے سے رابطہ رکھنے کے لئے جسم کا اہم ترین حصہ ہے اور اندرونی اور قلبی مقاصد کے اظہار کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔ زبان ایسا وسیلہ ہے جو ایک قوم سے دوسری قوم اور ایک نسل سے دوسری نسل تک معلومات کو منتقل کرتی ہے، لہذا مادی اور معنوی علوم میں جو اس حد تک ترقی ہوچکی ہے، اس کا ایک اہم ترین سبب زبان ہے، لیکن اگر انسان اسی زبان کی لگام کو آزاد چھوڑ دے اور ضرورت کے بغیر باتیں کرنے کا عادی ہوجائے تو رفتہ رفتہ زبان اسے ایسے نقصانات پہنچا دے گی جو ناقابل تلافی ہوں گے۔ زبان کو بےلگام چھوڑنے سے انسان کئی کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کربیٹھتا ہے جیسے جھوٹ، غیبت، الزام، چغلخوری اور کئی دیگر گناہ۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "نَجاةُ المؤمنِ في حِفظِ لِسانِهِ"[2]، "مومن کی نجات، اپنی زبان کو محفوظ کرنے میں ہے"۔ زبان کا غلط استعمال، انسان کے گھریلو اور معاشرتی تعلقات کو بگاڑ دیتا ہے، انسان کوئی بات بھی کرنے سے پہلے غور کرے کہ کیا یہ بات کرنی ضروری ہے، اگر ضروری ہو تو کرے ورنہ خاموشی اختیار کرے، کیونکہ زبان کو غور کیے بغیر کھولنا اس قدر نقصان دے سکتا ہے کہ انسان کی عزت کو کاری ضرب لگ جائے، اس لیے کہ امام المتقین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "ضَربُ اللِّسانِ أشَدُّ مِن ضَربِ السِّنانِ"[3]، "زبان کی ضربت، نیزہ سے زیادہ سخت ہے"۔ اور نیز آپؑ فرماتے ہیں: "المَرءُ يَعثُرُ برِجلِهِ فيَبرى، و يَعثُرُ بلِسانِهِ فيُقطَعُ رأسُهُ"[4]، "آدمی کا پاؤں پھسلتا ہے تو ٹھیک ہوجاتا ہے اور زبان پھسلتی ہے تو اس کا سر کٹ جاتا ہے"۔
جب انسان زبان کو بیجا استعمال کرنے کے مختلف نقصانات کو دیکھتا ہے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ خطبہ شعبانیہ میں رسول اکرم (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) نے کیوں حکم دیا ہے کہ "اپنی زبانوں کو محفوظ رکھو"، جب زبان زیادہ بولے تو دل مصروف ہوجاتا ہے، انسان اپنے الفاظ کی جال میں گرفتار رہتا ہے اور اس کی روح آزاد نہیں رہتی جو عالمِ غیب سے معارف الہی کو حاصل کرسکے۔ ماہ رمضان، اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق کرنے کا بہترین موقع ہے، کیونکہ  انسان جیسے کھانے پینے سے اپنے پیٹ اور منہ پر پابندی لگا دیتا ہے اور روزہ کی حالت میں رہتا ہے، اسی طرح اپنی زبان پر پابندی لگاتے ہوئے غیر ضروری باتوں سے زبان کو محفوظ رکھ سکتا ہے، بھوک اور پیاس کو برداشت کرتے رہنا اس امر کی دلیل ہے کہ اگر انسان مثلاً زبان کی بھی روک تھام کرلے اور غیراہم بات، زبان پر جاری نہ کرے تو زبان پر بھی قابو پاجائے گا، یہاں تک کہ جو بات جو لفظوں سے ہوسکتی ہے، وہاں تین لفظ استعمال نہیں کرے گا، البتہ اچھے اخلاق اور خوش مزاجی سے برتاؤ کرنے کے اصول کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے، مگر زبان اپنے قابو میں رہے۔

حرام سے آنکھوں کو بچانا: لفظ "غُضّوا" کے معنی یہ ہیں کہ نظروں کو نیچی رکھو، جیسا کہ سورہ نور میں حکمِ پروردگار ہے: "قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ"[5]، "(اے رسولؐ) آپ مؤمن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں"۔
نامحرم کی طرف نظریں اٹھانا، انسان کو گمراہی کی طرف دھکیل دیتا ہے اور دل میں شہوت اور گناہ کی جڑیں  پھیلا دیتا ہے، یہاں تک کہ انسان فتنہ و فساد اور معاشرتی خرابیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "النَّظرَةُ بعدَ النَّظرَةِ تَزرَعُ في القَلبِ الشَّهوَةَ ، و كفى بها لِصاحِبِها فِتنَةً"[6]، "نگاہ کے بعد نگاہ دل میں شہوت کو بو دیتی ہے اور یہی، دیکھنے والے کو فتنہ میں ڈالنے کے لئے کافی ہے"۔
قرآن کریم نے مرد اور عورت دونوں کو نگاہوں کو نیچی رکھنے کا حکم دیا ہے، نہ یہ کہ صرف مردوں کو حکم دیا ہے اور عورتوں کو نگاہیں اٹھا کر دیکھنے کی اجازت ہو اور نیز خواتین کو چاہیے کہ اسلامی حجاب کا خیال رکھیں اور اپنی زینت کو نامحرموں سے چھپائیں، کیونکہ نامحرم کے سامنے حجاب اور زینت کا خیال نہ رکھنا، نامحرم کو گناہ میں ڈالنے کا باعث بنتا ہے۔ ارشاد الہی ہے: "قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ . وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ ..."[7]، "اور (اے رسول(ص)) آپ مؤمن عورتوں سے کہہ دیجئے! کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاطت کریں اور اپنی زینت و آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو اور چاہیے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی زیبائش و آرائش ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ داداؤں کے، یا اپنے شوہروں کے باپ داداؤں کے، یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے (ہم مذہب) عورتوں کے یا اپنے غلاموں یا لونڈیوں کے یا اپنے نوکروں چاکروں کے جو جنسی خواہش نہ رکھتے ہوں۔ یا ان بچوں کے جو ابھی عورتوں کی پردہ والی باتوں سے واقف نہیں ہیں اور وہ اپنے پاؤں (زمین پر) اس طرح نہ ماریں کہ جس سے ان کی وہ زیبائش و آرائش معلوم ہو جائے جسے وہ چھپائے ہوئے ہیں۔ اے اہل ایمان! تم سب مل کر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرو۔ تاکہ تم فلاح پاؤ"۔
ناجائز آواز کو نہ سنا جائے: ارادہ اور اختیار کے ساتھ سننے کو استماع کہا جاتا ہے۔نامحرم سے بقصد لذت باتیں کرنا، باتیں سننا اور نیز حرام موسیقی اور غنا سننے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔ بعض ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ غنا اور میوزک، انسان کےدماغ کے لئے نقصان دہ ہے۔ منشیات بعض اوقات منہ کے ذریعہ، جسم میں داخل ہوتی ہیں تو انسان کے دماغ کو نقصان دے کر عقل کو زائل کردیتی ہیں، بعض اوقات سونگھنے کے ذریعہ، اور کبھی کانوں کے ذریعہ دماغ کو نقصان پہنچتا ہے جو یہی میوزک کے ذریعہ ہوتا ہے، اسی لیے بعض میوزک ایسی ہوتی ہیں کہ آدمی کو مستی جیسی حالت میں غرق کردیتی ہیں، البتہ بعض اوقات اِس حد تک نہیں پہنچتیں، لیکن آدمی کے دماغ پر اثرانداز ہوتی ہیں اور غم، غصہ، اضطراب اور بلڈپریشر جیسی امراض کو پیدا کردیتی ہیں اور کئی دیگر جسمانی نقصانات۔ لیکن یہ سب جسمانی نقصانات ایک طرف! معنوی اور معاشرتی نقصانات ان کے علاوہ ہیں۔غنا اور میوزک ایسی چیز ہے جو انسان کے دین کو برباد کردیتی ہے، انسان میں منافقت پیدا کرتی ہے، اللہ کی یاد بھول جاتی ہے، معاشرہ میں فتنہ و فساد اور گناہ و فحشا پھیل جاتے ہیں۔ سننے والے اور سنانے والے کو جو آخرت میں عذاب کیا جائے گا، اس کی بات ہی الگ ہے۔ جیسا کہ حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "الغِناءُ مِمّا أوعَدَ اللّه ُ عَزَّ و جلَّ علَيهِ النارَ، و هُو قَولُهُ عَزَّ و جلَّ : و مِنَ الناسِ مَن يَشْتَري لَهْوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عن سَبيلِ اللّه ِ بِغَيْرِ عِلْمٍ و يَتَّخِذَها هُزُوا اُولئكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ"[8]، "غنا ان چیزوں میں سے ہے جس کے بارے میں اللہ عزّوجلّ نے آگ کا وعدہ دیا ہے اور وہ اللہ عزّوجلّ کا (یہ) فرمان ہے: " اور انسانوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ سے غافل کر دینے والا بے ہودہ کلام خریدتا ہے تاکہ بغیر سوچے سمجھے لوگوں کو خدا کی راہ سے بھٹکائے اور اس (راہ یا آیتوں) کا مذاق اڑائے۔ ایسے لوگوں کیلئے رسوا کرنے والا عذاب ہے"۔[9]
نتیجہ: پیغمبر اسلام (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) خطبہ شعبانیہ کے مذکورہ فقروں میں تین چیزوں کی نصیحت فرمارہے ہیں، جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ انسان اگر چاہے تو اپنے جسم کے ان تین حصوں پر قابو پاسکتا ہے، زبان، آنکھ اور کان۔ ماہ رمضان اس مشق کا  بہترین موقع ہے کیونکہ اس مبارک مہینہ میں روزہ کی وجہ سے جسم کے کئی دیگر حصوں پر بھی انسان قابو پائے رکھتا ہے، تو وہ تجربہ اِس تجربہ میں کامیابی کے لئے مددگار ثابت ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] عيون أخبار الرضا (علیہ السلام)، شیخ صدوق، ج2، ص265.
[2] میزان الحکمہ، محمدی ری شہری، ج10، ص263۔
[3] میزان الحکمہ، ج10، ص264۔
[4] میزان الحکمہ، ج10، ص264۔
[5] سورہ نور، آیت30۔
[6] میزان الحکمہ، ج12، ص244۔
[7] سورہ نور، آیت30،31۔
[8] میزان الحکمہ، محمدی ری شہری، ج8، ص537۔
[9] آیات کا ترجمہ از: ترجمہ مولانا شیخ محسن نجفی (اعلی اللہ مقامہ)۔

kotah_neveshte: 

خلاصہ: خطبہ شعبانیہ کے مذکورہ فقروں کی روشنی میں معلوم ہوجاتا ہے کہ انسان اپنی زبان، آنکھ اور کان پر قابو پاسکتا ہے۔ اگر انسان ماہ رمضان میں اپنے منہ اور پیٹ پر قابو پا کر صبر کرسکتا ہے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ انسان اپنے جسم کے دیگر حصوں کو بھی اپنے قابو میں رکھتے ہوئے جہاں ضرورت ہو وہاں استعمال کرسکتا ہے، انسان میں اتنی عظیم طاقت پائی جاتی ہے۔

Add new comment

Plain text

  • No HTML tags allowed.
  • Web page addresses and e-mail addresses turn into links automatically.
  • Lines and paragraphs break automatically.
1 + 11 =
Solve this simple math problem and enter the result. E.g. for 1+3, enter 4.
ur.btid.org
Online: 71