خلاصہ:اس مختصر مضمون مین اہداف بعثت انبیا کو چند نکتوں کی صورت میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۲۷ رجب المرجب کو ہجرت سے ۱۳ سال پہلے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سورہ اقراء نازل ہوا۔محمد بن عبد اللہ جو بعثت سے پیلے ہی اپنی پارسائی کا لوہا منوا چکے تھے اور لوگوں کے درمیان ’’صادق ‘‘ اور ’’امیں‘‘ سے معروف تھے،۲۷ رجب کو غار حرا میں مصروفِ راز و نیاز تھے کہ خداوند عالم کی جانب سے جبرئیل امین پیغام الھی کے ساتھ نازل ہوئے اور سورہ اقراء کی پہلی آیات کی تلاوت فرمائی [اقرأ باسم ربک الذی خلق . خلق الانسان من علق . اقرأ وربک الاکرم . الذی علم بالقلم.علم الانسان ما لم یعلم]’’اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا ہے ،اس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے ،پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے ،جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی ہے ،اور انسان کو وہ سب کچھ بتادیا ہے جو اسے نہیں معلوم تھا ‘‘(۱)
اور اس طرح بعثت کا آغاز ہوا۔البتہ ہر صاحب فکر کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر پیغمبروں کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے اور انبیاء کو مبعوث کرنے کی کیا حکمت ہے؟
قارئین کرام کے لیئے اس کا جواب چند نکتوں میں مختصر طور سے بیان کیا جارہا ہے۔
پیغبمر خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے چند اہم اہداف و مقاصد :
(۱)انسانی اقدار کا احیا:
رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کے درمیان ایک فکری انقلاب پیدا کردیا اور دوران جاہلیت کی تمام رسومات کو ختم کروا کر اسلامی اور انسانی اقدار کو رائج کیا۔جو لوگ ذرا ذرا سی بات پر خون خرابہ کرنے لگتے اور جان،مال و ناموس کا کوئی احترام نہ کرتے یہاں تک کے اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے، ایسےلوگوں کے درمیان بعثت کے ذریعہ اقدار کو زندہ کیا۔ اسی کیفیت کو مولائے کائنات بیان فرماتے ہیں [ألا وَإنّ بَلیَّتَکُمْ قَدْ عادَتْ کَهَیئَتِها یَوْمَ بَعَثَ اللهُ نَبیَّهُ ـ صلّی الله علیه و آله ـ وَالَّذی بَعَثَهُ بِالْحَقِّ لَتُبَلْبَلُنَّ بَلْبَلَةً وَلَتُغَرْبَلُنَّ غَرْبَلَةً وَلَتُساطُنَّ سَوْطَ الْقِدْرِ حَتّی یَعُودَ أسْفَلُکُمْ أعْلاکُمْ وَأعْلاکُمْ أسْفَلَکُمْ] ’’ہوشیار ہو جاو!تمہیں جاننا چاہیے کہ تمہارے لیے وہی ابتلائیں پھر پلٹ آئی ہیں, جو رسول کی بعثت کے وقت تھے. اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق و صداقت کے ساتھ بھیجا. تم بری طرح تہ و بالا کیے جاؤ گے اور اس طرح چھانٹے جاؤ گے جس طرح چھلنی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جاؤ گے جس طرح (چمچے سے ہنڈیا) یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہو جائیں گے ‘‘(۲)
(۲)بت پرستی سے دوری اور وحدانیت کی دعوت:
خداوند عالم نے پیغمبروں کی ایک اہم ذمہ داری کو ذکر کرتے ہوئے بیان فرنایا ہے کہ انبیا کو مبعوث کرنے کا مقصد بت پرستی سے دوری اور وحدانیت کی دعوت ہے۔[ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فىِ كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللَّهَ وَ اجْتَنِبُواْ الطَّغُوت]’’ اوریقینا ہم نے ہر امّت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو ‘‘(۳)
(۳)تزکیہ اور تعلیم کتاب و حکمت:
خداوند کریم نے اس بات کی طرف سورہ آل عمران میں یوں اشارہ فرمایا:[ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلىَ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِن كاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَالٍ مُّبِي] ’’ یقنیا خدا نے صاحبانِ ایمان پر احسان کیا ہے کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا ہے جو ان پر آیات الٰہیٰہ کی تلاوت کرتا ہے انہیں پاکیزہ بناتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ پہلے سے بڑی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے ‘‘(۴)
(۴)مرحلہ عبودیت تک پہونچانا:
خداوند عالم نے واضح طریقہ سے متعدد مقامات پر خلقت انسان کے مقصد کو بیان کیا ہے، مثلا فرمایا [وَ مَا خَلَقْتُ الجِْنَّ وَ الْانسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون] ’’ اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے ‘‘(۵)۔تو جب خلقت کا مقصد عبادت ہے تو کوئی نمونہ عمل بھی تو ہو جو عبادت کر کے دیکھائے۔ اسی لئے آنحضرت (ص) نے فرمایا [صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي]’’نماز پڑہو ، جیسے مجھے نماز پڑہتے دیکھتے ہو ‘‘(۶)
(۵) اللہ تبارک و تعالی اور بندوں کے درمیان واسطہ:
وہ انسان جو اپنے خالق سے بے خبر بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے ،جب انکے دلوں میں نور ہدایت پیدا ہوا تو لازم تھا کہ عبد کو معبود سے ملانے کے لئے کوئی ہو اور یہ کام ختمی مرتبت کا تھا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ جو فیض الھی کا واسطہ بنے۔قرآن مجید اس نکتہ کی طرف اشارہ کرتا ہے [يَأَيُّهَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ اتَّقُواْ اللَّهَ وَ ابْتَغُواْ إِلَيْهِ الْوَسِيلَ] ’’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو ‘‘(۷)
(۶)اخلاق حسنہ کو رائج کرنا:
ایسے ماحول میں کہ جہاں بد اخلاقی اور کج ادائی عام ہو،خداوند عالم نے پیکرِاخلاق حسنہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا تاکہ لوگ اخلاق الھی سے آراستہ ہو جائیں۔اسی بات کو رسالتمآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یوں ذکر کیا [إنّما بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکارِمَ الاَخْلاقِ] ’’میں اس لئے مبعوث ہوا ہوں تاکہ مکارم اخلاق کو تمام کر سکوں‘‘ (۸)
(۷)اختلافات کو حل کرنا:
انسان کی معاشرتی زندگی میں مختلف فکروں اور مزاجوں کے لوگ پائے جاتے ہیں ، لھذا آپس میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔خداوند عالم نے رسول (ص)کو اختلافات دور کرنے اور قضاوت کرنے کے لئے بھیجا۔ [كاَنَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنذِرِينَ وَ أَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَينَْ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُواْ فِيهِ] ’’ لوگ ایک ہی دین (فطرت) پر تھے، (ان میں اختلاف رونما ہوا) تو اللہ نے بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان امور کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے تھے ‘‘(۹)
(۸)عدل و انصاف کو لوگوں کے درمیان رائج کرنا:
انسان فطرتا عدالت پسند ہے اور بہترین معاشرہ وہ ہے جہاں عدل و انصاف کا بول بالا ہو۔اسی لئے انبیا بھیجے گئے تاکہ عدل و انصاف قائم ہو سکے۔ ارشاد ربّ العزت ہے [لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط]’’ بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں ‘‘(10)
(۹) اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے لوگوں پر اتمام حجت:
خداوند عالم نے لوگوں کے لئے باطنی ھادی کا انتظام کیا اور عقل کی نعمت سے نوازا تاکہ انسان اپنی عقل کو استعمال کرے اور گمراہ نہ ہو،لیکن رسول باطنی کے ساتھ ساتھ رسول ظاہری کی بھی ضروت تھی تاکہ کوئی نمونہ عمل ہو اور قیامت کے دن لوگ اعتراض نہ کریں لھذا پیغمبروں کو بھیج کر لوگوں پر حجت تمام کر دی۔اسکے لئے فرمایا [رُّسُلًا مُّبَشرِِّينَ وَ مُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلىَ اللَّهِ حُجَّةُ بَعْدَ الرُّسُلِ وَ كاَنَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمً] ’’ یہ سارے رسول بشارت دینے والے اور ڈرانے والے اس لئے بھیجے گئے تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد انسانوں کی حجت، خدا پر قائم نہ ہونے پائے اور خدا سب پر غالب اور صاحب حکمت ہے ‘‘(11)
ان نکات کو بڑھنے کے بعد اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ خداوند حکیم نے انبیا کو کیوں مبعوث کیا؟۔
علمائے کرام نے اور بھی اہداف اور مقاصد کو تفصیل سے بیان کیا ہے جنکا ذکر اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے لھذا ہم ان چند نکات پر اکتفا کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
(۱)سورہ علق ۱ ۔ ۵، (ترجمہ آقای ذیشان حیدر جوادی)
(۲)نھج البلاغہ ۔ خطبہ نمبر ۱۶ (ترجمہ http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=206393)
(۳)سورہ نحل آیۃ 36 (ترجمہ آقای ذیشان حیدر جوادی)
(۴)سورہ آل عمران آیۃ ۱۶۴ (ترجمہ آقای ذیشان حیدر جوادی)
(۵)سورہ الذاریات آیۃ 56 (ترجمہ آقای ذیشان حیدر جوادی)
(۶)بحار الانور ،ج82،ص279،باب34 التشھد و احکامہ
(۷)سورہ مائدہ آیۃ ۳۵ (ترجمہ جناب نجفی صاحب)
(۸)مستدرک الوسائل، محدث نوری، مؤسسه آل البیت، 1408، قم، ج11، ص187.
(۹) سورہ بقرہ آیۃ 213 (ترجمہ جناب نجفی صاحب)
(۱۰) سورہ حدید آیۃ 25 (ترجمہ جناب نجفی صاحب)
(۱۱) سورہ نساء آیۃ 165 (ترجمہ آقای ذیشان حیدر جوادی)
Add new comment