بسم اللہ الرحمن الرحیم
مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس سلسلہ میں پانچواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ امام المتقین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) محمدؐ و آل محمدؐ پر صلوات بھیجتے ہوئے مناجات کو شروع کرتے ہیں، اس کے بعد بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ اسْمَعْ دُعَائِی إِذَا دَعَوْتُك وَ اسْمَعْ نِدَائِی إِذَا نَادَیتُك وَ أَقْبِلْ عَلَی إِذَا نَاجَیتُك، فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَیك"، "اور میری دعا سن جب تجھے پکاروں اور میری آواز (نداء) سن جب تجھے آواز (نداء) دوں اور میری طرف توجہ فرما جب تجھ سے رازونیاز (مناجات) کروں، تو تیری طرف بھاگ آیا ہوں"۔ اس مضمون میں "فَقَدْ هَرَبْتُ إِلَیك"کے فقرہ کے بارے میں گفتگو کی جارہی ہے۔
الفاظ کی تشریح
ھرب: بھاگنا۔ لفظ "ھرب" کبھی اکیلا، حرف جرّ کے بغیر استعمال ہوتا ہے، جیسے قرآن مجید نے جِنات کی یہ بات نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: "وَأَنَّا ظَنَنَّا أَن لَّن نُّعْجِزَ اللَّهَ فِي الْأَرْضِ وَلَن نُّعْجِزَهُ هَرَباً[1]"، "اور یہ کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور نہ ہی بھاگ کر اسے بےبس کر سکتے ہیں"۔
اگر لفظ "ھرب" کے ساتھ لفظ "اِلی" استعمال ہو تو اس کا مطلب ہے "کی طرف بھاگنا"، جیسا کہ اس مناجات میں یہی ہے اور اگر اس کے ساتھ لفظ "مِنْ" ہو تو اس کے معنی ہیں "سے بھاگنا"، لہذا "الی" اور "من" کے ذریعہ معنی بالکل الٹ ہوجاتے ہیں، جیسا حضرت امام سجاد (علیہ السلام) خوفِ خدا کے باعث، اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں: "... وَ لَوْ أَنَّ أَحَداً اسْتَطَاعَ الْهَرَبَ مِنْ رَبِّهِ لَكُنْتُ أَنَا أَحَقَّ بِالْهَرَبِ مِنْك..."[2]، "اگر تیرے ہمہ گیر عفو و درگذر کے وُہ مواقع نہ ہوتے جن کا میں اُمیدوار ہوں تو میں اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان کرچکا تھا۔ اگر کوئی ایک بھی اپنے پروردگار سے نکل بھاگنے پر قادر ہوتا تو میں تجھ سے بھاگنے کا زیادہ سزاوار تھا …"۔[3]
حضرت امام موسی کاظم (علیہ السلام) اللہ تعالی سے طویل رازونیاز کرتے ہوئے یہ جملہ بھی اپنی مناجات میں عرض کرتے ہیں: "يَا سَيِّدِي مِنْكَ هَرَبْتُ إِلَيْكَ وَ وَقَفْتُ بَيْنَ يَدَيْكَ مُتَضَرِّعاً إِلَيْكَ"[4]
مناجات کی تشریح
"فَقَدْ هَرَبْتُ اِلَيْك": اللہ کے سوا کسی چیز سے بھی دل لگانا، انسان کو مشکلات میں ڈال دیتا ہے، لہذا ہر طرح کے لگاو سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے، چاہے وہ شیطان ہو، نفس امارہ ہو، حکومت اور مال و دولت کی ہواوہوس ہو، بلکہ جو چیز بھی انسان کو اللہ تعالی سے غافل کردے اور اپنی طرف متوجہ کرلے وہ ایسا بت ہے جو انسان کے سامنے خوبصورت بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ انسان جو کام کرتا ہے یا جو کچھ حاصل کرتا ہے، اس کے بدلہ میں اپنی قیمتی عمر کو کھورہا ہے جبکہ حاصل ہونے والی چیز ہرگز عمر کی قیمت کے برابر نہیں ہے، لہذا انسان ہر معاملہ میں گھاٹا اٹھاتا ہے، مگر اپنی عمر کو اللہ کی راہ میں لگائے، اس صورت میں اس نے اپنی عمر کھو کر، عمر سے زیادہ قیمتی چیز حاصل کرلی ہے جو اللہ کی رضا، جہنم سے نجات اور جنت کا دائمی ٹھکانہ ہے، اسی لیے ہر چیزسے فرار اور دوری اختیار کرتے ہوئے اللہ کی طرف بھاگ جانا چاہیے۔
اللہ کی طرف بھاگ جانے سے مراد کیا ہے؟ واضح ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نعوذباللہ جسم نہیں ہے جو ایک طرف ہو اور انسان کا دشمن دوسری طرف ہو۔ یہ فرار، روحی، قلبی اور معنوی طور پر ہے۔ اللہ کے دشمن، انسان کو اپنی طرف کھینچنے کے درپے ہیں تو انسان کو کیا کرنا چاہیے کہ اللہ کے دشمنوں سے نجات پاکر اللہ کی طرف بھاگ جائے۔ اس بھاگنے سے مراد دل کا بھاگنا اور ہواوہوس کو چھوڑ دینا ہے، ورنہ نفس ہمیشہ ہمارے ساتھ ہےاور اس سے فرار کرنا بے معنی ہے اور اللہ بھی ہرجگہ ہے اور کسی خاص جگہ پر نہیں ہے۔ قرآن کریم نے سورہ والعصر میں اعلان کردیا ہے کہ سارے انسان گھاٹے میں ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اور حق اور صبر کی وصیت و نصیحت کی۔
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی اِس مناجات کا مفہوم، قرآن کریم کی اُس آیت سے ملتا جلتا ہے جو اللہ تعالی نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی بات کو نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: "فَفِرُّوا إِلَى اللَّـهِ [5]"، "بس تم اللہ کی طرف دوڑو"۔ حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) اس شخص کی طرح اللہ سے یہ رازونیاز کررہے ہیں جو اپنے آپ کو مصیبتوں کے طوفان میں اور دشمنوں کے لشکر میں دیکھ رہا ہو اور اتنے سخت حالات سے بھاگتے ہوئے فرار کرتے ہوئے کسی مطمئن پناہگاہ کی پناہ لے۔
پناہ لیتے ہوئے انسان کی طاقتوں کا نکھرنا: ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسان میں مختلف طاقتیں چھپی ہوئی ہیں اور جب تک خطرہ محسوس نہ کرے، ان کو استعمال نہیں کرتا اور ہوسکتا ہے کہ خود بھی ان طاقتوں کے وجود سے بےخبر ہو، لیکن جب کوئی جانی دشمن اس کے تعاقب میں پڑجائے تو اس کے چنگل سے بھاگنے کے لئے اپنی ساری طاقت کو لگادے گا اور اگر ہر طرف سے دشمنوں نے گھیرا ڈالا ہوا ہو اور صرف ایک طرف اور جہت ہو جہاں پر دشمن کی رسائی نہیں اور اس کو پناہ دینے والا دوست بھی اسی طرف اس کی انتظار کررہا ہو جس طرف اسے بھاگنے کا راستہ مل رہا ہے، تو یقیناً نرغہ اعداء میں گھرا ہوا شخص، اپنی ساری طاقت کے ساتھ بھاگتا ہوا اپنے دوست کی پناہ لے گا۔ ساری کائنات میں پروردگار عالم سے زیادہ انسان کا کوئی خیرخواہ نہیں ہے اور مختلف طرح کے دشمنوں نے انسان کو اپنے گھیرے میں ڈالا ہوا ہے، لہذا ہر انسان کو چاہیے کہ دشمنوں کی فرمانبرداری کے گھیرے سے نکل کر اللہ کی فرمانبرداری کی طرف بھاگ جائے، کیونکہ خدائے رحمان ہی ہے جو بہترین پناہ دینے والا ہے، جیسا کہ چوتھے تاجدار امامت و ولایت حضرت سیدالساجدین (علیہ السلام) بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ بِيَدِكَ، يَا إِلَهِي، جَمِيعُ ذَلِكَ السَّبَبِ، وَ إِلَيْكَ الْمَفَرُّ وَ الْمَهْرَبُ، فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ، وَ أَجِرْ هَرَبِي وَ أَنْجِحْ مَطْلَبِي"[6]، "یہ تمام وسائل اے میرے معبود تیرے ہی ہاتھ میں ہیں، اور تیری ہی طرف راہِ فرار و گریز ہے، لہذا تو محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور میرے گریز کو اپنے دامن میں پناہ دے اور میری حاجت برلا۔"[7]
مناجات شعبانیہ میں اللہ کی طرف بھاگ جانے کی بات وہ امامؑ کررہے ہیں جو ہر طرح کے لگاو سے الگ تھلگ ہیں اور مذموم دنیا کو تین طلاقیں دینے والے ہیں، یقیناً وہ اخلاص کے سمندر کو اپنے دل میں سموئے ہوئے کہتے ہیں: "بارالہا! میں تیری طرف بھاگ آیا ہوں"۔
انسان کے طرح طرح کے دشمن: مذکورہ بالا مطالب میں واضح ہوگیا کہ اللہ کی طرف بھاگنے کی وجہ دشمنوں کی دشمنی ہے۔ اب ان دشمنوں کا مختصر تعارف:
۱۔ انسان کا نفس: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے: "اَعْدى عَدُوِّكَ نَفْسُكَ الَّتي بَيْنَ جَنْبَيْكَ"[8]، "تمہارا سب سے بڑادشمن تمہارا وہ نفس ہے جو تمہارے دو پہلووں میں ہے"۔
۲۔ جنّى شیطان: شیطان ملعون نے اللہ کی عزت کی قسم کھاکر مخلَصین کے سوا سب کو گمراہ کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے، اللہ تعالی نےاس کی یہ بات قرآن کریم میں ہمیں بتلادی ہے: "قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ . إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ"[9]، "اس نے کہا تو پھر تیری عزّت کی قسم میں سب کو گمراہ کروں گا۔ علاوہ تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص بنالیا ہے"۔
۳۔ شیطان زادے: قرآن کریم میں ارشاد الہی ہے:"إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ"[10]، "وہ اور اس کے قبیلہ والے تمہیں دیکھ رہے ہیں اس طرح کہ تم انہیں نہیں دیکھ رہے ہو"۔
۴۔ انسانی شیاطین: پروردگار عالم کا ارشاد ہے: " شَيَاطِينَ الْإِنسِ وَالْجِنِّ"[11] اور نیز سورہ والناس میں جنی اور انسانی شیاطین سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے: "قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النّاسِ ... مِنَ الْجِنَّةِ وَالنّاس"۔
نتیجہ: ہر طرف سے انسان کے دشمن مسلسل کوششوں کے ساتھ انسان کے تعاقب میں لگے ہوئے ہیں جو انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے قرب پروردگار کے مقام سے دور کردیتے ہیں لہذا انسان کو چاہیے کہ اللہ کی طرف بھاگ جائے اور اللہ کی طرف بھاگنا ایمان اور نیک اعمال اور حق و صبر کی وصیت و نصیحت کے ذریعہ ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ جن، آیت 12۔
[2] صحیفہ سجادیہ، دعاء ۵۰۔
[3] ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)۔
[4] جمال الأسبوع بكمال العمل المشروع، ابن طاووس، ص289۔
[5] سورہ ذاریات، آیت 50۔
[6] صحیفہ سجادیہ، دعا 21۔
[7] ترجمہ علامہ مفتی جعفر حسین (اعلی اللہ مقامہ)۔
[8] بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج 67، ص 36۔
[9] سورہ ص، آیت 82، 83۔
[10] سورہ اعراف، آیت 27۔
[11] سورہ انعام، آیت 112۔
خلاسہ: اس مضمون میں حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی مناجات شعبانیہ کے اس فقرہ کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے جس میں آپ (علیہ السلام) نے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا ہے کہ میں تیری طرف بھاگ آیا ہوں، اس مضمون میں بھاگنے کا مطلب بتایا گیا ہے اور اس سلہسلہ میں وضاحت پیش کی گئی ہے۔
Add new comment