بسم اللہ الرحمن الرحیم
مناجات شعبانیہ جو حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے نقل ہوئی ہے اور اس مناجات کو سب ائمہ اطہار (علیہم السلام) پڑھا کرتے تھے، اس مناجات کے سلسلہ میں نواں مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ امام المتقین حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) اس فقرہ میں بارگاہ الہی میں عرض کرتے ہیں: "وَ قَدْ جَرَتْ مَقَادِیرُك عَلَیَّ یا سَیِّدِی فِیمَا یكونُ مِنِّی إِلَی آخِرِ عُمْرِی مِنْ سَرِیرَتِی وَ عَلانِیتِی"، "اور یقیناً تیری تقدیریں میرے بارے میں اے میرے آقا، میری عمر کے آخر تک جاری ہوئی ہیں میرے خفیہ امور اور آشکار امور کے متعلق"۔
مناجات کی تشریح:
لفظ قدر، اندازہ کے معنی میں ہے۔ جیسے: "إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ[1]"، "بےشک ہم نے ہر چیز کو خاص اندازہ سے پیدا کیا ہے"۔ جتنا انسانی علم ترقی پاتا جائے، اس گہرے اندازہ سے زیادہ واقف ہوتا جائے گا، یہ گہرا اندازہ نہ صرف باریک مخلوقات میں ہے بلکہ آسمانی عظیم سیاروں میں بھی جاری ہے۔
اصطلاح میں قدر و تقدیر الہی یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر مخلوق کے لئے مقدار، کیفیت، زمان اور مکان کے لحاظ سے کوئی اندازہ اور حدود مقرر کیے ہیں جو تدریجی علل و اسباب کے باعث وقوع پذیر ہوتے ہیں اور آخری مرحلہ سے پہلے، تدریجی مراتب کے حامل ہیں، بعید، متوسط اور قریب مقدمات پر مشتمل ہوتے ہیں، بعض اسباب کی تبدیلی سے تبدیل ہوجاتے ہیں اور یہ تبدیلی، تقدیر میں تبدیلی شمار ہوتی ہے۔
قضاء الہی یہ ہے کہ کسی مخلوق کے مقدمات اور اسباب کو فراہم کرنے سے اسے آخری اور حتمی مرحلہ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ اس مرحلہ میں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔[2]
حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اس فقرہ میں مقدرات کے ساتھ "جرت" کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی مقدرات جاری رہتے ہیں، لہذا ماضی، حال اور مستقبل میں جاری رہتے ہیں اور انسان کی زندگی کی اول سے آخر تک کو شامل ہوتے ہیں اور انسان کے تمام خفیہ اور واضح امور، اللہ تعالی کے مقرر کردہ مقدرات کے زیر اہتمام سرانجام پاتے ہیں۔
قضاوقدر کی بحث، علم کلام کی دشوارترین بحثوں میں سے ہے۔ قضاوقدر کے بارے میں پہلا سوال جو ذہن میں آتا ہے یہ ہے کہ اگر ایسا ہے کہ انسان کی زندگی میں جو کچھ پیش آتا ہے وہ اللہ کی قضاوقدر کے مطابق ہے تو پھر دعا کرنے کا کیا فائدہ ہے اور زندگی میں انسان کی کوشش و محنت کا کیا فائدہ ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ:
اولاً: قضاوقدر گھنی ٹہنیوں والے درخت کی طرح ہے۔ اس کی ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی یہی دعا کرنا اور پھر دعا کا مستجاب ہونا قضائے الہی کا ایک مصداق ہے، یعنی اللہ کی قضاوقدر اس بات سے تعلق پائی ہے کہ انسان کی زندگی میں دعا اور دعا کی استجابت ہو۔
نیز اللہ تعالی نے یہ اراد کیا ہے اور یوں قضاوقدر کو جاری کیا ہے کہ جو شخص زندگی میں محنت و کوشش کرے وہ اپنے مطلوب تک پہنچ جائے گا اور یہ مقدر کیا ہے کہ جو شخص تقوا اختیار کرے وہ کامیاب ہوجائے گا۔
ثانیاً: دعا کے بارے میں بات اس سے کہیں بالاتر ہے کہ دعا قضائے الہی کو بھی بدل سکتی ہے، جیسا کہ حضرت امام محمد باقر (علیہ السلام) سے نقل ہوا ہے: "اَلدُّعاءُ یَرُدُّ الْقَضاءَ وَ قَدْ اُبْرِمَ اِبْراما"[3]، "دعا، قضا کو ٹال دیتی ہے چاہے قضا بالکل مضبوط ہوچکی ہو"۔ یہ عالم خلقت کا ایک اور عجیب شاہکار ہے کہ انسان اس عظیم کائنات میں اللہ کے اذن و اجازت سے اتنا اثر ڈال سکتا ہے۔
بنابریں قضاوقدر کائنات کی تمام مخلوقات کو شامل ہوتی ہے اور کوئی مخلوق اس سے لاتعلق نہیں ہے، چاہے وہ انسان کا کام ہو یا دیگر طبعی اور ارضی و سماوی حادثات، کیونکہ اگرچہ قضاوقدر کا تعلق، اللہ تعالی کے علم سے ہے، لیکن انسان کو بھی اللہ نے اختیار دے رکھا ہے کہ وہ مقدرات میں تبدیل کرسکتا ہے۔
قضاوقدر اور اختیار کا باہمی تعلق: تقدیر ایسی چیز ہے جس نے ہر چیز کو گھیرا ہوا ہے، صرف موت نہیں جو مقدر ہے بلکہ علاج بھی مقدر ہے، صرف ہلاک ہونا مقدر نہیں بلکہ ہلاکت سے نجات پانا بھی مقدر ہے۔ انسان کا اختیار بھی مقدرات میں سے ہے، لہذا اختیار کو استعمال کرنا، تقدیر کو بگاڑنے کے مرادف نہیں، بلکہ اختیار خود بھی ایک مقدر ہے۔
دوسرے لفظوں میں، اللہ کا ارادہ اور انسان کا ارادہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں نہیں ہے، بلکہ یہ دونوں ارادے ایک ہی سلسلہ میں ہیں، جیسے انسان کے ارادہ کا قلم پر اثر ہوتا ہے اور قلم لکھتی ہے، تو کہا جاسکتا ہے کہ انسان بھی لکھ رہا ہے اور قلم بھی لکھ رہی ہے، لہذا نظریہ جبر اور تفویض دونوں باطل ہیں۔
قضاوقدر کا انسان کی زندگی پر اثر: اللہ کی مقدرات پر توجہ کرنا، انسان کے سکون اور اطمینان کا باعث ہے اور انسان کو بہتر زندگی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم اللہ کی مقدرات کے بغیر زندگی کر ہی نہیں سکتے، دوسرے لفظوں میں، یہ بات بے معنی اور مہمل ہے کہ ہم کچھ اتفاقات اور چانسز میں زندگی بسر کررہے ہیں۔
انسان کا اختیار اور آزادی چند محدود راستوں میں سے کسی راستہ کو انتخاب کرنے میں ہے، نہ یہ کہ ہزاروں راستوں میں ہم مختار ہیں، حتی خداوند متعال بعض اوقات ہماری سوچ میں مداخلت کرتا ہے اور ہماری سوچ کو نیچے اوپر کرتا ہے تا کہ اپنی مقدرات کو وقوع پذیر کرے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد گرامی ہے: "إذا أرادَ اللّهُ عز و جل إنفاذَ قَضائِهِ و قَدَرِهِ، سَلَبَ ذَوِی العُقولِ عُقولَهُم حَتّى یَنفَذَ فیهِم قَضاؤُه وقَدَرُهُ، فَإِذا مَضى أمرُهُ رَدَّ إلَیهِم عُقولَهُم، ووَقَعَتِ النَّدامَةُ"[4]، "جب اللہ عزوجل اپنی قضاوقدر کو نافذ کرنا چاہے تو صاحبانِ عقل کی عقلوں کو لے لیتا ہے تاکہ اپنی قضاوقدر کو ان میں نافذ کردے اور جب اللہ کا کام وقوع پذیر ہوگیا تو ان کی عقلوں کو ان کی طرف پلٹا دیتا ہے تو ندامت وقوع پذیر ہوجاتی ہے (مثلاً انسان کہتا ہے: میں نے یہ کام کیوں کیا، مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا)"۔
شب قدر کی جو اتنی اہمیت ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کی بارگاہ میں جا کر دیکھیں کہ اپنی مقدرات میں کیسا اثر ڈال سکتے ہیں۔ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر کم سے کم، ادب و احترام اور تواضع کے ساتھ عرض کریں: بارالہا! ہاں میں نے ایک سال تیری نافرمانی کی، لیکن اسی ایک رات میں جس کے بارے میں تو نے فرمایا ہے کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے، میں آیا ہوں اور خاکساری کے ساتھ تیری بارگاہ میں کھڑا ہوں…۔ یہی شب قدر کی انکساری ہمارے مقدرات میں بہت اثر ڈال سکتی ہے۔
خیال رہے کہ ہوسکتا ہے شیطان انسان کے دل میں یہ بات ڈال دے کہ تم ایک سال میں انسان نہیں بنے تو اب ایک ہی رات میں کب انسان بن جاوگے؟ اگر ایسی سوچ آئے تو انسان اس بات پر غور کرے کہ یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے اور اس رات میں مقدرات لکھے جاتے ہیں، ہوسکتا ہے یہی ایک رات کو میں سیدھی راہ پر آجاوں اور ہدایت پاجاوں اور میرے مقدر بدل جائیں، کیونکہ اتنی بڑی رات کو توبہ کرنے والا اور اپنے گناہوں پر شرمندہ ہونے والا شخص اس آدمی کے برابر نہیں ہوسکتا جو اس ایک رات کو بھی بارگاہ الہی میں نہیں آیا۔
شب قدر میں یہی شب بیداری اور رات کو جاگنا، بارگاہ الہی میں ایک طرح کا تواضع ہے اور ان مقدرات کا ایک طرح کا احترام ہے جنہیں اللہ ہمارے لیے مقرر کرنا چاہتا ہے۔ مثلا جب ہم شب قدر کو اعمال بجالاتے ہوئے ادب و احترام سے بیٹھے ہوئے کہہ رہے ہیں "الغوث الغوث خَلّصنا مِنَ النّارِ یا رَبّ " تو ہوسکتا ہے اللہ تعالی ہمارے لیے بہتر مقدر اور مصلحت لکھ دے۔
نتیجہ: حضرت امیرالمومنین (علیہ السلام) کی مناجات شعبانیہ کے اس فقرہ سے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں: اللہ تعالی انسان کے تمام چھپے اور واضح امور سے واقف ہے۔ انسان کی زندگی کے تمام امور اللہ کی تقدیر کے مطابق ہیں۔ تقدیریں زندگی کی ابتدا سے انتہا تک جاری رہتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] سورہ قمر، آیت 49۔
[2] البتہ بعد میں بیان ہوگا کہ دعا قضا کو ٹال دیتی ہے۔
[3] ميزان الحكمہ، محمدی ری شہری، ج4، ص19۔
[4] الفردوس، ح966۔
خلاصہ: حضرت علی (علیہ السلام) کی مناجات شعبانیہ سے واضح ہوتا ہے کہ تمام امور اللہ کی تقدیر کے مطابق ہیں۔ انسان کو اللہ کی تقدیروں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے، اللہ کی تقدیریں انسان کی زندگی کی ابتدا سے انتہا تک ہوتی ہیں۔
Add new comment