خلاصہ: انتظار کی دو قسمیں ہیں ایک مثبت ایک منفی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انتظار ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی روح کو بلندی عطاء کرتاہے اور انسان کے اندر ایک تحول پیدا کرتاہے، یہ ایک ایسا عمل ہے جو انسان کی فردی اور اجتماعی زندگی میں بے شمار برکات اپنے ساتھ لئے ہوئے ہوتا ہے، اسی لئے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اہل بیت(علیہم السلام) سے اسکی فضیلت کے بارے میں بے شمار احادیث نقل ہوئی ہیں، جیسا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ارشاد فرمارہے ہیکہ: «برترین عبادت، فرج کا انتظار کرناہے»، [1]اور امام علی(علیہ اسلام)ارشار فرمارہے ہیکہ: «فرج کےانتظار کرو اور خدا کی رحمت سے ناامید نہ ہو ، اس لئے کے خدا کے نزدیک فرج کا انتظار کرنا پسندیدہ ترین عمل ہے»[۲]۔
انتظار کی دو قسمیں ہیں ایک مثبت اور ایک منفی:
۱۔ مثبت انتظار
یہ وہی انتظار ہے جو روایات میں وارد ہوا ہے انتظار کے معنی یہ نہیں ہیکہ انسان اپنے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے، اس امید میں کہ جب امام زمانہ(عجل الله تعالي فرجه الشريف) کا ظھور ہوگا تو تمام کام صحیح ہوجایئنگے اور اس بنیاد پر ایک مسلمان اپنے دینی فرائض سے منہ نہیں پھیر سکتا، یہ کہتے ہوئے کے جب امام آئینگے تب سب صحیح ہوجائیگا۔
امام صادق (علیہ السلام) اس انتظار کے بارے میں ارشاد فرمارہے ہیں کہ:«تم میں سے ہر ایک کو قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف)کے ظہور کے لئے تیار رہنا چاہئے اگرچہ یہ تیاری ایک تیر کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو کیونکہ جب خداوند دیکھتا ہے کہ کوئی شخص امام مہدی (عجل اللہ تعا لی فرجہ الشریف) کی نصرت کے لئے مسلح ہوا ہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ اسکی عمر کو طولانی کردیا جائے تاکہ وہ ان کے ظہور کو درک کرسکے اور آنحضرت(عجل اللہ تعا لی فرجہ الشریف) کے اعوان و انصار میں شامل ہوسکے»[۳].
اس حدیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیکہ جو امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کا حقیقی منتظر ہوگا وہ ایک تماشائی کی طرح نہیں ہوگا، بلکہ اپنے آپ کو تیار کریگا کہ امام مھدی(عجل للہ تعلی فرجہ الشریف ) کےنصرت کرنے والوں میں اپنا نام درج کروائے ، اور اس طریقہ سے وہ اپنے آپ کو اچھے سے اچھا بنانے کی کوشش کریگا۔
۲۔ منفی انتظار
کچھ لوگوں نے انتطار کو خاموشی، گوشہ نشینی، اور کنارہ کشی کا مظہر قرار دیا ہے انہوں نے انتظار کی حقیقت کو نہیں سمجھا ۔بعض کے ذہن میں یہ غلط فکر موجود ہے کہ تمام کام خودبخود اور بغیر کسی تیاری کے ٹھیک ہوجائیں گے جبکہ اس کائنات پر حاکم اصول یہ بتاتے ہیں کہ انسانی مشکلات بغیر رنج و الم اور جہاد کے حل نہیں ہوسکتے۔ امام باقر(علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ لوگ کہتے ہیں جب مہدی (عجل للہ تعالی فرجہ الشریف)قیام کریں گے تو تمام امور خودبخود ٹھیک ہوجائیں گے اور ذرہ برابر خونریزی نہیں ہوگی امام (علیہ السلام )نے جواب میں فرمایا! « ھرگز نہیں خدا کی قسم اگر کسی کے لئے خودبخود امور کا ٹھیک ہونا درست ہوتا تو یہ کام پیغمبر اسلام( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لئے کیا جاتا جب آپ کے دندان مبارک شہید کئے گئے اور آپ کی صورت مبارک پر زخم آئے لہذا ہرگز ایسا نہیں ہے کہ امور خودبخود ٹھیک ہوجائیں ۔ خدا کی قسم امور ٹھیک نہ ہوں گے جب تک ہم اور آپ خون اور پسینے میں غرق نہ ہوجائیں پھر آپ نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا»[۴]۔
امام(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) کے ظھور کا اھم مقصد انسان کے اخلاقی فضائل کو کمال تک پہونچانا ہے تاکہ اس خلاقی کمالات کے ذریعہ امام(عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ) کے چاہنے والوں میں اپنا نام درج کرواسکیں۔
خدا ہم سب کو امام زمانہ(عجل اللہ تعلی فرجہ الشریف ) کے حقیق چاہنے والوں میں شمار فر مائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ محمد باقرمجلسى، بحار الانوار، ج ۵۲، ص ۱۲۵، ح ۱۱، دار إحياء التراث العربي، بيروت، دوسری چاپ،۱۴۰۳ق.
[۲]۔ بحارالأنوار، ج ۵۲، ص ۱۲۳، ح ۷.
[۳]۔«ليعدن احدکم لخروج القائم و لو سهما، فان الله اذا علم ذلک من نيته رجوت لان ينسي في عمره حتي يدرکه و يکون من أعوانه و أنصاره» [بحارالانوار، ج ۵۲، ص۳۶۶، ح ۱۴۶.]
[۴]۔ «قلت لابی جعفر علیہ السلام انھم یقولون، ان المہدی لوقام لست لاستقامت لہ الامور عفوا و لایحریق مھجۃ دم فقال کلا والذی نفس بیدہ لولا استقامت لاحد عفوا لاستقامت لرسول اللہ حین ادمیت رباعیتہ و شبح فی وجہ کلا والذی نفس بیدہ حتی نمسح نحن وانتم العرق والعلق ثم مسح بجبھۃ». الغیبۃ نعمانی ،[بحار الانوار ج۵۲، ص۳۵۸،ح۱۲۳۔]
Add new comment