خلاصہ: خدا سے نزدیک ترین شخص وہ ہے جو تواضع کے ساتھ پیش آتا ہے، اور دورترین شخص وہ ہے جو تکبر کرنا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَللَّهُمَّ ارْزُقْنى فيهِ طاعَةَ الْخاشِعينَ وَ اشْرَحْ فيهِ صَدْرى بِاِنابَةِ الْمُخْبِتينَ بِاَمانِكَ يا اَمانَ الْخآئِفينَ[۱].
خدایا اس دن میں خضوع و خشوع کرنے والے بندوں کی اطاعت میرا نصیب کر، اور میرے سینے کو اس میں کشادہ کر اپنے خدا سے ڈرنے والوں کی فروتنی کی طرح اپنے امان سے اے خوف رکھنے والوں کے امان۔
انسان کو اپني حقيقت سے ہر وقت آگاہ رہنا چاہيۓ، دنيا کے اموال اور طاقت کے حصول کے بعد اکثر انسان اپني اصليت بھول جاتا ہے اور طاقت کے نشہ ميں وہ ايسے کام انجام دينا شروع کر ديتا ہے جو اسے بربادي کي طرف لے جاتے ہيں، انسان کو ہميشہ يہ ياد رکھنا چاہيۓ کہ اسے جس خدا نے پيدا کيا، جس نے اسے يہ سب نعمتيں عطا کي ہيں وہي خدا اسے ان نعمتوں اور زندگي سے محروم کرنے پر بھي قادر ہے، اس ليۓ خدا کے بتاۓ ہوۓ اصولوں کے مطابق رہ کر معاشرے ميں زندگي گزارني چاہيۓ اور تکبر و غرور سے بچنا چاہيۓ، تکبر کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) فرمارہے ہیں: « ُإِنَّ فِي السَّمَاءِ مَلَكَيْنِ مُوَكَّلَيْنِ بِالْعِبَادِ فَمَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ رَفَعَاهُ وَ مَنْ تَكَبَّرَ وَضَعَاهُ[۲] آسمان میں دو فرشتے ہیں، جب کوئی بندہ تواضع سے پیش آتا ہے تو وہ اسے اوپر لیکر جاتے ہیں اور جب وہ تکبر کرتا ہے تو وہ اسے پھینک دیتے ہیں»۔
تکبر کے مقابل میں خضوع اور خشوع ہے، خضوع اور خشوع ایک راستہ کی طرح ہے جس کے ذریعہ انسان اللہ کی رضا اور خشنودی پہونچتا ہے، یہ خضوع اور خشوع ہے جس کی وجہ سے انسان خدا سے نزدیک ہوتا ہے، کیونکہ انسان جتنا خدا کی بارگاہ میں اپنے آپ کو ذلیل اور خوار کرتا ہے، خدا کے نزدیک اسکی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوتی جاتی ہے، جس کے بارے میں امام صادق(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « أَوحَی اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ إلَی دَاوُدَ یا دَاوُدُ کَما أنَّ أقرَبَ النَّاسِ مِنَ اللهِ المُتَوَاضِعونَ کَذَلِکَ أبعَدُ الناسِ مِنَ اللهِ المُتَکَبِّرُونَ[۳] اللہ تعالی نے جناب داؤد کی جانب وحی کی کہ اے داؤد جس طرح تواضع کرنے والے، اللہ سے سب سے زیادہ قریب ہیں اسی طرح تکبر کرنے والے، اللہ سے دور ہوتے ہیں».
اور دوسری حدیث میں حضرت علی(علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « وَ اعْتَمِدُوا وَضْعَ التَّذَلُّلِ عَلَى رُءُوسِكُمْ وَ إِلْقَاءَ التَّعَزُّزِ تَحْتَ أَقْدَامِكُمْ وَ خَلْعَ التَّكَبُّرِ مِنْ أَعْنَاقِكُمْ وَ اتَّخِذُوا التَّوَاضُعَ مَسْلَحَةً بَيْنَكُمْ وَ بَيْنَ عَدُوِّكُمْ إِبْلِيسَ وَ جُنُودِه[4] اپنے سروں پر تواضع اور ذلت کا تاج رکھو، اور عزت کو اپنے پیروں کے نیچے رکھو، اور اپنی گردنوں سے تکبر کو نکال پہینکو، خضوع اور خشوع کو اپنے اور شیطان اور اسکے لشکر کے درمیان قرار دو»۔
ان روایات کی روشنی میں ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ خدا سے سب سے زیادہ قریب وہ شخص جس نے تواضع کو اختیار کیا، اسی لئے آج کے دن ہم خداوند عالم سے دعا کر رہے ہیں: « اَللَّهُمَّ ارْزُقْنى فيهِ طاعَةَ الْخاشِعينَ؛ خدایا اس دن میں خضوع و خشوع کرنے والے بندوں کی اطاعت میرا نصیب کر»۔
’’مخبتین‘‘ ان لوگوں کو کہنے ہیں جو خدا کے احکام کے سامنے جھک جاتے ہیں، ’’مخبتین‘‘کی صفات کو چار حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
۱۔ پہلے فرمایا جارہا ہے: وہ لوگ ہیں جیسے ہی الله کا نام ان کے سامنے لیا جائے، ان کے دل خوف الٰہی سے معمور ہو جاتے ہیں: « الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُھُمْ»۔
۲۔ زندگی میں پیش آنے والے مصائب و آلام پر نہایت صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہیں: « وَالصَّابِرِینَ عَلیٰ مَا اٴَصَابَھُمْ»۔
۳، ۴۔ نماز قائم کرتے اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں: « وَالْمُقِیمِی الصَّلَاةِ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُونَ»۔
یعنی ایک طرف الله کے ساتھ ان کا گہرا رابطہ ہے اور دوسری طرف ان کی جڑیں خلقِ خدا میں دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔[۵]۔
اسی طرح کا کردار اختیار کرنے کے لئے ہم آج کے دن دعاگو ہیں: « وَ اشْرَحْ فيهِ صَدْرى بِاِنابَةِ الْمُخْبِتينَ بِاَمانِكَ يا اَمانَ الْخآئِفينَ؛ اور میرے سینے کو اس میں کشادہ کر اپنے خدا سے ڈرنے والوں کی فروتنی کی طرح اپنے امان سے اے خوف رکھنے والوں کے امان»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۴۔
[۲]۔ محمد بن يعقوب كلينى، اصول كافي، دار الكتب الإسلامية،۱۴۰۷ ق، ج۲، ص۱۲۲.
[۳]۔ اصول کافی، ج۲، ص۱۲۴۔
[4]۔ محمد باقر مجلسى، بحار الأنوارالجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ، دار إحياء التراث العربي ،۱۴۰۳ ق، ج۱۴، ص۴۶۷.
[۵]۔ ناصر مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ،دار الکتب الاسلامیۃ، ۱۳۷۴ش،ج۱۴، ص۱۰۳۔
Add new comment