خلاصہ: حضرت عیسی(علیہ السلام) کی سب سے واضح اور روشن صفت جس پر وہ فخر کرتے تھے، وہ ان کا اللہ کا بندہ ہونا ہے جس کے بارے میں قرآن کی متعدد آیات موجود ہیں۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام انبیاء، اللہ کی جانب سے اس کا پیغام لیکر آئے اور جو نبی بھی اللہ کا پیغام لیکر آیا ہے اس میں کوئی نہ کوئی خصوصیت ضرور پائی جاتی ہے جس کی بناء پر خداوند عالم نے ان کو انتخاب فرمایا، اسی طرح حضرت عیسی(علیہ السلام) کے اندر بھی بہت زیادہ خصوصیات پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک جو بہت ہی واضح اور روشن ہے اور حضرت کا اللہ کا بندہ ہونا ہے جس کے لئے وہ خود بھی فخر کرتے ہیں۔
اس بارے میں علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ قرآن نے جناب عیسی(علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے بندہ ہیں اور وہ چیزیں جن کی نسبت ان کی طرف دی گئی ہے، انہون نے اس کا کوئی بھی دعویٰ نہیں کیا ہے انہون نے صرف اپنی رسالت کے بارے میں فرمایا ہے[۱]، قرآن کریم اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے: «مَا قُلْتُ لَہُمْ اِلَّا مَآ اَمَرْتَنِيْ بِہٖٓ اَنِ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ وَكُنْتُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْہِمْ۰ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْہِمْ وَاَنْتَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ[سورۂ مائدہ، آیت:۱۱۷] میں نے ان سے صرف وہی کہا ہے جس کا تو نے حکم دیا تھا کہ میری اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کا گواہ اور نگراں رہا پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ان کا نگہبان ہے اور تو ہر شی کا گواہ اور نگراں ہے».
اس آیت کے ذریعہ یہ بات پورے طریقہ سے واضح ہوگئی ہے کہ حضرت عیسی(علیہ السلام) نے جو کچھ خدا نے پہونچانے کا حکم دیا تھا ان سب کو پہنوچایا اور جس چیز کا خدا نے حکم نہیں دیا اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جو اس آیت سے واضح ہوجاتا ہے: «وَاِذْ قَالَ اللہُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَاُمِّيَ اِلٰــہَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللہِ۰ۭ قَالَ سُبْحٰنَكَ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ۰ۤ بِحَقٍّ اِنْ كُنْتُ قُلْتُہٗ فَقَدْ عَلِمْتَہٗ۰ۭ تَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِيْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِيْ نَفْسِكَ۰ۭ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ[سورۂ مائدہ، آیت:۱۱۶] اور جب اللہ نے کہا کہ اے عیسی بن مریم کیا تم نے لوگوں سے یہ کہا ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو .... تو عیسٰی نے عرض کی کہ تیری ذات بے نیاز ہے میں ایسی بات کیسے کہوں گا جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اور اگر میں نے کہا تھا تو تجھے تو معلوم ہی ہے کہ تو میرے دل کا حال جانتا ہے اور میں تیرے اسرار نہیں جانتا ہوں- تو، تو غیب کا جاننے والا بھی ہے».
خداوند عالم اور جناب عیسی(علیہ السلام) کے درمیان یہ سوال اور جواب اس بات کی دلیل ہے کہ بعض عیساائیوں کا جو جناب عیسی(علیہ السلام) کے متعلق اعتقاد ہے وہ صحیح نہیں ہے اور قرآن میں اس بات کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے بلکہ بعض مسیحی جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں، حضرت عیسی(علیہ السلام) ہرگز ان سے راضی نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو اللہ کا بندہ کہنے ہوئے افتخار کرتے ہیں جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: «لَنْ يَّسْتَنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلہِ وَلَا الْمَلٰۗىِٕكَۃُ الْمُقَرَّبُوْنَ[سورۂ نساء، آیت:۱۷۲] نہ مسیح کو اس بات سے انکار ہے کہ وہ بندۂ خدا ہیں اور نہ ملائکہ مقربین کو».
خداوند عالم قرآن مجید کی دو آیتوں میں جناب عیسی(علیہ السلام) کو "کلمہ" (مخلوق) ہونے کے بارے میں بیان فرمارہا ہے ایک حضرت مریم کو بشارت دیتے وقت اور دوسرے جب اھل کتاب کو مخاطب قرار دیا: « اور اس وقت کو یاد کرو جب ملائکہ نے کہا کہ اے مریم خدا تم کو اپنے کلمہ مسیح عیسٰی(علیہ السّلام) ابن مریم کی بشارت دے رہا ہے جو دنیا اور آخرت میں صاحبِ وجاہت اور مقربین بارگاہ الٰہی میں سے ہے[سورۂ آل عمران، آیت:۴۵] اے اہل کتاب اپنے دین میں حد سے تجاوز نہ کرو اور خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہو ---مسیح عیسٰی علیہ السّلام بن مریم، صرف اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جسے مریم کی طرف القاء کیا گیا ہے اور وہ اس کی طرف سے ایک روح ہیں[سورۂ نساء، آیت۱۷۱».
ان دونوں آیتوں میں واضح طور پر خدا نے یہ فرمایا ہے کہ عیسی(علیہ السلام) کلمہ خدا(مخلوق) ہے، دیکھو عیسی(علیہ السلام) کے حق میں غلو کے مرتکب نہ ہونا۔
نتیجہ:
ان تمام آیات کی روشنی میں یہ معلوم ہوا کہ حضرت عیسی(علیہ السلام) کی سب سے واضح اور روشن صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کے بندہ ہے اور اس پر ان کو افتخار ہے اور آپ اللہ کی مخلوق ہے جس سے یہ معلوم ہوگیا کہ وہ خدا نہیں ہے کیونکہ اگر خدا ہوتے تو مخلوق نہیں ہوتے، اس بات سے بعض عیسائیوں کا عقیدہ جناب عیسی(علیہ السلام) کے بارے میں غلط ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
[۱] سید محمد حسین طباطبائی، ترجمه تفسيرالميزان، مترجم: سيد محمد باقر موسوى، دفتر انتشارات اسلامى جامعهى مدرسين حوزه علميه قم, ۱۳۷۴ش، ج۶، ص۳۴۶.
Add new comment